لیبیا: مسائل ابھی تک اپنی جگہ
11 مئی 2012لیبیا میں جون کے آخر میں منتخب کی جانے والی اسمبلی کے دو سو اراکان ہوں گے۔ ان کی ذمہ داری عبوری حکومت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دینا ہو گی، جو نئے ملکی آئین کا مسودہ تیار کرے گی۔ اس طرح لیبیا میں نئے آئین کی بنیاد پر عام انتخابات کا انعقاد اگلے برس مئی میں ہی ممکن ہو سکے گا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد لیبیا کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا اور ان میں سے ایک ملک کی ایک نئے انداز سے تعمیر ہے۔ تاہم ایک ایسی ریاست کا قیام آسان نہیں ہے، جہاں آئین اور قانون کی بالادستی ہو، جہاں تمام ادارے اور اقتصادی شعبہ فعال انداز میں کام کر رہے ہوں۔ جرمن شہر مائنز کی یورنیورسٹی میں عرب دنیا پر تحقیق کرنے والے ادارے کے سربراہ گُنٹر مائر کہتے ہیں کہ قذافی نے اپنے اقتدار اور خاندان والوں کو بچانےکے لیے بہت سے اداروں کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ ’’دور حاضر کے کسی جمہوری ملک کے لیےجو ادارے لازمی سمجھے جاتے ہیں، معمر قذافی نے انہیں ختم کر دیا تھا۔‘‘
لیبیا کی عبوری کونسل کو اس وقت مختلف محاذوں پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اگر ایک کامیاب اور مستحکم ریاست کی بنیاد رکھنا چاہتی ہے تواسے پہلے اپنے داخلی مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ قبائل اور ملک کے مختلف حصوں میں موجود آزاد اور خود مختار شدت پسند گروپوں پر قابو پانا بھی بہت ضروری ہے۔ طرابلس میں قائم کی جانے والی سلامتی کی کمیٹی ابھی تک اس قابل نہیں ہے کہ وہ عوام کو تحفظ کی ضمانت دے سکے۔ اس سارے معاملے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ لیبیا میں حکمران عبوری کونسل کو اکثر معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسے کرنا کیا ہے۔ گُنٹر مائر کہتے ہیں لیبیا کی صورتحال ابھی گھمبیر ہے۔ ’’بے شک لیبیا میں آمر حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن ایک جمہوری مستقبل اور سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی کا طویل سفر ابھی شروع ہوا ہے۔‘‘
معمر قذافی کے دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندی تھی اور عبوری کونسل نے یہ پابندی رواں برس جنوری میں اٹھائی تھی۔ اس طرح انتخابات کے لیے 38سیاسی جماعتوں نے اپنا انداراج کرایا ہے اور ان میں کئی مذہبی اور اسلامی جماعتیں بھی ہیں۔ اس دوران لیبیا میں ووٹرز کی فہرستیں تیار کرنے کا عمل انتہائی سست روی سے جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ووٹ دینے کے اہل افراد کی تعداد 3.4ملین بنتی ہے۔ تاہم یہ امر ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مغربی ممالک آزادانہ، منصفانہ اور جمہوری انتخابات کے انعقاد میں لیبیا کے ساتھ کوئی تعاون کریں گے بھی یا نہیں۔ عرب دنیا سے متعلقہ امور کے ماہر گُنٹر مائر کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری کسی دوسرے ملک کی نہیں بلکہ لیبیا کی عبوری کونسل اور عوام کی ہے۔
D. Hodali / ai / mm