لیبیا، مقید مہاجرین کی المناک داستانیں
13 دسمبر 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیبیا میں انصاف کے نظام کے غیر مؤثر ہو جانے کے باعث وہاں مہاجرین کو بھی انتہائی برے حالات کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس شمالی افریقی ملک میں مہاجرین کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور خواتین کو جنسی تشدد کا سامنا ہے بلکہ ساتھ ہی انہیں غلامی پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ان کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔
لیبیا کے پانیوں سے ساڑھے چھ ہزار مہاجرین ریسکیو
لیبیا میں افریقی مہاجرین کی حالت زار
بحیرہ روم میں ایک اور حادثہ، مزید سو مہاجرین لاپتہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر شیخ زید الراعد الحسین نے لیبیا میں قائم مہاجرین کے حراستی مراکز کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے، ’’لیبیا میں انسانی حقوق کی صورتحال بحران کا شکار ہے، جس سے ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
رواں برس کے آغاز سے اب تک لیبیا سے سمندری راستے کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار ہو چکی ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر کا تعلق نائجیریا اور اریٹریا جیسے افریقی ممالک سے بتایا جاتا ہے۔
پرخطر سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے بہت سے مہاجرین کو لیبیا میں ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے، جنہیں مختلف حراستی مراکز منتقل کر دیا جاتا ہے۔
تازہ اعدادوشمار کے مطابق متروک ویئر ہاؤسز میں بنائے گئے ایسے حراستی مراکز میں سات ہزار افراد کو قید رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے متعدد مراکز میں مہاجرین کم خوراکی کا شکار ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق انسانوں کے اسمگلرز یورپ جانے کے خواہمشند بہت سے افراد کو قید کرتے ہیں اور ان کے گھر والوں سے تاوان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایسے افراد کے گھر والے تاوان ادا نہ کریں تو ان کے عزیزوں کو ہلاک بھی کر دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتی سرپرستی میں قائم مہاجرین کے حراستی مراکز کے محافظ وہاں قید خواتین کو اجتماعی جنسی تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو ایسی باوثوق خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ انسانوں کی اسمگلنگ کے اس گھناؤنے عمل میں کچھ حکومتی اہلکار بھی رشوت وصول کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے لیبیا کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان مہاجرین کے حراستی مراکز میں قید تمام خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے تمام حراستی مراکز کو بھی بند کر دیا جانا چاہیے، جن کی سرپرستی حکومت کے پاس نہیں ہے۔