لیبیا میں امریکی سفارت خانہ بند
27 جولائی 2014امریکی حکام نے بتایا کہ لیبیا کے درالحکومت طرابلس میں باغی گروپ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور اس وجہ سے صورتحال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی نائب ترجمان میری ہیرف کے بقول ’’ہمیں افسوس ہے کہ ہم یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں کیونکہ طرابلس میں امریکی سفارت خانے کے قریب شدید لڑائی جاری ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ عملے کو تیونس پہنچا دیا گیا ہے، جہاں سے اسے امریکا روانہ کر دیا جائے گا۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے پریس سیکرٹری ریئر ایڈمرل جان کربی نے بتایا کہ عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فوج سے مدد لی گئی تھی اور ان میں وہ سکیورٹی گارڈز بھی شامل تھے، جو سفارت خانے کی حفاظت پر مامور تھے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق مقامی افراد نے بتایا کہ امریکی سفارت خانے سے کاروں اور ٹرکوں کا ایک قافلہ دارالحکومت کی سڑکوں سے ہوتا ہوا گزرا جبکہ اس دوران فضا میں فوجی طیارے بھی پرواز کر رہے تھے۔ واشنگٹن حکام کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب ابھی حال ہی میں طرابلس میں امریکی سفارت خانے کے قریب ایک بم گرا تھا تاہم اس سے کوئی مالی یا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
اس تناظر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ لیبیا میں جاری جمہوری عمل میں امریکی تعاون پہلے ہی کی طرح برقرار رہے گا۔ ’’ لیبیا کو ایک نئی شناخت دینے کے لیے بہت سے افراد نے جان کی قربانی دی ہے اور بہت محنت بھی کی گئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ لیبیا میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والے افراد یہ سمجھیں گے کہ یہ لڑائی اور تشدد صرف افراتفری اور مشکلات کا سبب بننے گا۔‘‘
کیری نے مزید کہا کہ حالات معمول پر آتے ہی امریکی سفارتی عملہ واپس لیبیا پہنچ جائے گا۔ اس دوران امریکی دفتر خارجہ نے لیبیا کا سفر کرنے والے اپنی شہریوں کو خبردار کیا ہے اور لیبیا میں موجود امریکی شہریوں سے فوری طور پر ملک چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔
لیبیا میں مصراتہ سے تعلق رکھنے والا ایک شدت پسند گروپ تیرہ جولائی سے زنتان کے ایک حریف گروپ سے لڑ رہا ہے۔ 2011ء میں معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے طرابلس کا ہوائی اڈہ زنتان کے گروپ کے قبضے میں ہے۔ اس دوران ہوائی اڈے کی مختلف عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ وہاں کھڑے جہازوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ طرابلس کے ہوائی اڈے سے پروازوں کا سلسلہ معطّل ہے۔