لیبیا میں امن بات چیت کے آغاز کا امکان
10 اپریل 2015لیبیا کے حکومت اور متحارب گروپوں کے مابین جاری امن بات چیت کی طوالت کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر ماہرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان حالات میں اس مسئلے کے سیاسی حل کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور اس طرح ملک میں لڑائی مزید شدید ہو سکتی ہے اور اسلامی انتہا پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی پشت پناہی کے ساتھ 2011ء میں معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے بعد سے لیبیا مختلف مسلح تنازعات کا شکار ہے۔ حکومت اور طاقت ور ملیشیا گروہ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کے مختلف حصوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ان حالات میں لیبیا میں قائم دو پارلیمانوں کے وفود اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک مرکزی حکومت کے قیام کے لیے ہونے والے مذکرات میں حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم کئی ہفتوں سے جاری یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مشن کے ایک نمائندے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بات چیت تعطّل کا شکار ہو گئی تھی تاہم اس اختتام ہفتے پر اس کے دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔‘‘
اس بات چیت کے دوران چھ نکات پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جن میں اُس وقت تک ایک عبوری حکومت کے قیام بھی شامل ہے، جب تک نئے آئین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور انتخابات نہیں کرائے جاتے۔
بین الاقوامی سطح پر قیام امن کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے سے منسلک فریڈرک ویہرے کہتے ہیں،’’ دونوں اطراف معتدل موقف رکھنے والے افراد ہیں، جو لڑائی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان افراد کا خیال ہے کہ اسلامی انتہاپسندی کا خاتمہ ایک متحدہ مرکزی حکومت کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ فریقین میں سخت گیر موقف کے حامل افراد بھی موجود ہیں، جو اپنے نجی مفادات کی وجہ سے فائر بندی اور ایک حکوت کے حق میں نہیں ہیں۔
لیبیا میں دو پارلیمان اور دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔ اگست میں باغی گروپوں نے حملہ کرتے ہوئے طرابلس پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی ایک حکومت قائم کر لی تھی جبکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے والی وزیر اعظم عبداللہ الثانی کی حکومت مشرقی سرحد کے قریب ایک دور افتادہ قصبے میں قائم ہے۔ حکومت اور متحارب گروپوں کے مابین اس لڑائی میں ایک اندازے کے مطابق تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔