لیبیا میں انتخابات، سکیورٹی خدشات کے سائے میں
5 جولائی 2012خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لیبیا میں ایسے عناصر کی کوئی کمی نہیں ہے، جنہوں نے ہفتے کے تاریخی انتخابات کے بائیکاٹ یا انہیں سبوتاژ کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
ان حالات کے پیشِ نظر اس شمالی افریقی ریاست کے مشرقی حصے میں بالخصوص کشیدگی ہے، جو 2011ء میں معمر قذافی کے خلاف احتجاج کا مرکز تھا۔
عبوری حکومت کے ترجمان ناصر المناع نے بدھ کو رات گئے ایک بیان میں عوام پر زور دیا کہ وہ ان انتخابات میں حصہ لیں اور اس عمل پر فخر کرتے ہوئے اسے تحفظ فراہم کریں، جو استحکام اور ترقی کی جانب قدم ہے۔
مناع کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت ملک کے مشرق میں علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، جو مشرق اور مغرب کو ملانے والی اہم سڑک پر ٹریفک میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
سکیورٹی سروسز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سابق حکومت کے حامی انتخابی عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
انتخابات سے پہلے مغربی پہاڑی علاقے میں مختلف کمیونٹیوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں، جن کے نتیجے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ تازہ لڑائی جنوبی علاقے کفرہ میں ہوئی اور وہاں بھی درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل کمیٹی فار دی ریڈ کراس جیسے عالمی ادارے اور سفارتی مشنز بھی حملوں کا نشانہ رہے ہیں، تاہم ان کے خلاف کارروائیوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے جمعرات کو ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ لیبیا کے مشرقی علاقے میں مسلح مظاہرین انتخابی عمل کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ یکم جولائی کو بن غازی میں مسلح افراد نے انتخابی دفاتر پر دھاوا بول دیا تھا۔
مخالف گروپ قومی اسمبلی میں مشرقی علاقے کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاحال پروگرام کے مطابق مغربی علاقے کے لیے اسمبلی میں 100، مشرق کے لیے 60 اور جنوب کے لیے 40 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
مشرقی علاقے میں اسلامی گروپ بھی انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم ملک کو قرآن کے علاوہ کسی آئین کی ضرورت نہیں ہے۔ لیبیا کے عبوری حکام کا کہنا ہے کہ اسلام پسند محض اقلیت میں ہیں۔
لیبیا میں ہفتے کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق 72 حلقوں میں انتخابات کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے سپریم سکیورٹی کمیٹی کے 45 ہزار اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں۔ تیرہ ہزار فوجی بھی تعینات کیے جا رہے ہیں۔
ng/aa (AFP)