لیبیا میں تیل کی دولت پر قبضے کی جنگ
10 مارچ 2014طرابلس حکومت نے کہا ہے کہ السدر نامی بندرگاہ سے تیل ایکسپورٹ کیا گیا تو جہاز پر بمباری کرتے ہوئے اُسے تباہ کر دیا جائے گا۔ مبصرین کی رائے میں لڑائی کے بڑھنے سے ملک کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔
لیبیا کے وزیر اعظم علی زیدان کا ہفتے کے روز کہنا تھا کہ بحریہ کی ہدایات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو ہنگامی صورتحال میں السدر کی بندرگاہ پر موجود آئل ٹینکر کو بمباری کرتے ہوئے تباہ کر دیا جائے گا۔
اس کے جواب میں لیبیا کے مشرقی علاقے برقہ میں مزید خودمختاری کا مطالبہ کرنے والے اور خود کو وزیراعظم ڈیکلئیر کرنے والے باغیوں کے سربراہ عبد ربّو البرعصی کا کہنا تھا، ’’جس کسی نے بھی حملہ کیا، اسے جواب دیا جائے گا۔‘‘
لیبیا کے مشرقی حصے میں جاری بغاوت کو اس ملک کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے ايسے خدشات کا اظہار کيا جا رہا ہے کہ اسی مقام سے خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مختلف حصوں میں قبائلی علاقوں کے سردار باغیوں کے ساتھ مل کر خودمختار حکومتیں قائم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس سلسلے میں باغیوں کی کوشش ہے کہ خام تیل کے ملٹی بلین ڈالر مالیت کے شعبے پر قبضہ کر ليا جائے۔ خام تیل کی فروخت اس ملک کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔
تین بندرگاہوں پر قبضہ
لیبیا میں خام تیل کے کنوؤں پر قبضے کی جنگ کا آغاز اگست 2013ء میں اس وقت ہوا، جب باغیوں نے لیبیا کی نئی حکومت سے منہ موڑتے ہوئے تیل کی کئی اہم بندرگاہوں پر قبضہ کر لیا۔ یہی وہ مسلح باغی تھے، جنہوں نے معمر قذافی کے خلاف بغاوت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ حکومت مخالف باغی السدر کے علاوہ راس النوف اور الزوتینیہ جیسی اہم بندرگاہوں پر بھی قابض ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تینوں بندرگاہیں چھ لاکھ بیرل خام تیل برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
لیبیا کے مشرقی حصے میں مزید خودمختاری کا مطالبہ کرنے والے باغیوں کا کہنا ہے کہ انہیں خام تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 15 فیصد حصہ دیا جائے جبکہ طرابلس حکومت اس مطالبے کو مسترد کر چکی ہے۔ رواں برس جنوری میں بھی باغیوں نے تیل کا ایک ٹینکر برآمد کرنے کی کوشش کی تھی، جسے حکومتی فورسز نے ناکام بنا دیا تھا لیکن اب باغی ہر حال میں تیل فروخت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کے مطابق اگر باغی تیل برآمد کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو یہ مرکزی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔ سیاسی اختلافات کی شکار ليبيا کی پارلیمان کے بارے میں یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ وہ باغی گروپوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مغربی سفارتکاروں کے مطابق خانہ جنگی کی صورت میں لیبیا دو نہیں بلکہ کئی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔
فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ لیبیا کے باغیوں سے تیل کون خریدنا چاہتا ہے؟ لیکن السدر کی بندرگاہ پر موجود بحری جہاز کا نام ’مارننگ گلوری‘ ہے اور اس پر شمالی کوریا کا جھنڈا نصب ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جہاز پیونگ یانگ حکومت کا نہیں ہے۔ بی بی سی نیوز کے مطابق یہ جہاز سعودی عرب کی ایک کمپنی کی ملکیت رہ چکا ہے لیکن فی الوقت اس جہاز کا مالک کون ہے اور تیل کون سی کمپنی خریدنا چاہتی ہے، واضح نہیں ہے۔