’لیبیا میں حملے متحدہ عرب امارات نے کیے‘
26 اگست 2014امریکی حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران متحدہ عرب امارات نے مصری اڈے استعمال کرتے ہوئے خفیہ طور پر لیبیا میں اسلام پسند ملیشیا پر فضائی حملے کیے تھے جبکہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے اس شمالی افریقی ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
امریکا، جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ کی طرف سے پیر کو جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ لیبیا میں بیرونی مداخلت وہاں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ان مغربی اتحادی ملکوں نے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ لیبیا میں متحارب گروہ فوری طور پر فائر بندی پر متفق ہو جائیں۔
ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے مصری فضائی اڈوں کا استعمال کرتے ہوئے لیبیا میں فعال اسلام پسند جنگجوؤں پر حملے کیے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان حملوں کے لیے نہ تو واشنگٹن نے مشاورت فراہم کی اور نہ ہی ان میں حصہ لیا۔ تاہم مصر یا امارات نے لیبیا میں ہونے والے ان حملوں میں اپنے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات ان اسلام پسند ملیشیا گروہوں کو اپنا مشترکہ دشمن تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف عرب اسپرنگ کے بعد طاقت حاصل کرنے والے ان اسلام پسند گروپوں کو قطر اور ترکی کی حمایت حاصل رہی ہے۔ لیبیا میں معمرالقذافی کے اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد وہاں مختلف ملیشیا گروہ ایک دوسرے کے خلاف فعال ہو گئے تھے جبکہ وہاں کی مرکزی حکومت ان مسلح گروپوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
لیبیا میں اس تازہ پیش رفت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مغربی ممالک نے خبردار کیا ہے کہ وہاں بیرونی فوجی مداخلت سے داخلی تقسیم مزید بڑھ جائے گی جبکہ جمہوریت کے لیے کوششوں کو بھی دھچکا لگے گا۔ امریکا، جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ کی طرف سے جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ لیبیا بالخصوص طرابلس اور بن غازی میں بڑھتے ہوئے تشدد کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
ان ممالک نے لیبیا میں مختلف متحارب ملیشیا گروہوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر فائر بندی کے معاہدے پر اتفاق رائے کرتے ہوئے جہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مؤثر مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ اس بیان میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ’بیرونی حملے‘ اس ملک کی سکیورٹی کی صورتحال کو مزید مخدوش بنا سکتے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ماضی میں ایسے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے امریکا پر انحصار نہیں کر سکتے۔ یہ عرب ریاستیں ماضی میں بھی لیبیا، شام اور عراق میں ’پراکسی وارز‘ کا حصہ بن چکی ہیں تاکہ علاقائی سطح پر طاقت اور اثر و رسوخ کی لڑائی میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کر سکیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران امارات امریکا سے درجنوں ایف سولہ طیاروں کے علاوہ ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹس اور اپنے جنگی طیاروں کے لیے جدید میزائل اور گائیڈڈ بم بھی خرید چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عرب ممالک میں متحدہ عرب امارات اپنی فضائیہ کے حوالے سے ایک انتہائی جدید ملک ہے۔ علاوہ ازیں اس ریاست میں پانچ ہزار امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔