لیبیا میں خونریز جھڑپیں، درجنوں ہلاکتیں
28 جولائی 2014جرمنی، برطانیہ اور امریکا اپنے شہریوں کو لیبیا سے نکل جانے کا مشورہ دے چکے ہیں جبکہ ملکی دارالحکومت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد ہونے والی شدید لڑائی کے پیش نظر امریکا طرابلس میں اپنے سفارتخانے کے تمام اہلکاروں کو واپس بلا چکا ہے۔
طرابلس سے امریکی سفارتی عملے کا انخلاء اس لیے مہم جو نوعیت کا رہا ہو گا کہ لیبیا کے دارالحکومت سے امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کو زمینی راستے سے ہمسایہ ملک تیونس پہنچایا گیا تھا۔ یہ گاڑی کے ذریعے پانچ گھنٹے کا سفر تھا، جس دوران کہا جاتا ہے کہ جنگی طیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں نے فضا سے اس زمینی قافلے کی سلامتی کو یقینی بنایا۔
اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا تھا، ’’لیبیا کے دارالحکومت میں ملیشیا گروپوں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے حالات ناقابل کنٹرول ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر شہر کے اس حصے میں جہاں امریکی سفارت خانہ قائم ہے۔ امریکی سفارت خانے کے ملازمین کی جانوں کو خطرہ ہے۔ ہم نے اپنی سفارتی نمائندگی کو عارضی طور پر معطل کیا ہے لیکن سفارت خانہ بند نہیں کیا۔‘‘
طرابلس سے رات کی تاریکی میں امریکی سفارتی عملے کے انخلاء کا تعلق اس واقعے کی یاد سے بھی ہے جس میں دو سال قبل شمال مشرقی لیبیا میں بن غازی کے شہر میں امریکی قونصل خانے پر عسکریت پسندوں کے حملے میں امریکی سفیر اور ان کے تین ساتھی سفارتکار ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اس تناظر میں طرابلس سے امریکی سفارتی انخلاء کا فیصلہ بظاہر اس لیے درست محسوس ہوتا ہے کہ ویک اینڈ پر اسی شہر میں ایک راکٹ حملے میں 20 سے زائد مصری کارکن مارے گئے۔
لیبیا کا المیہ یہ ہے کہ نیٹو کی مدد سے 2011ء میں معمر قذافی کے طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک مسلح ملیشیا گروپوں کے مابین میدان جنگ بن چکا ہے۔ ان عسکری قوتوں میں قذافی دور میں لڑنے والے مسلح قبائلی گروپ بھی شامل ہیں، باغی فوجی بھی اور وہ اسلام پسند ملیشیا گروہ بھی جو مختلف شہروں اور پورے کے پورے علاقوں پر قبضے کے لیے اپنی خونریز جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیبیا کی حکومت ان سب مسلح قوتوں کے خلاف اس لیے بے بس ہے کہ اس ملک میں اس وقت کوئی فعال سکیورٹی فورسز موجود ہی نہیں۔ طرابلس حکومت تو ریاست کی مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کے خلاف خبردار بھی کر چکی ہے۔ نو منتخب ملکی پارلیمان نے مسلسل بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے باعث یہ تجویز پیش کر دی ہے کہ پارلیمان طرابلس سے بندرگاہی شہر بن غازی منتقل کر دی جائے۔
بن غازی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بھی مسلح جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ لیبیا کی فوج کے ایک ترجمان کے مطابق ابھی حال ہی میں بن غازی میں مسلح عسکریت پسندوں نے شہر میں ایک فوجی اڈے پر حملہ کر دیا۔ اس کے علاوہ ملکی سکیورٹی فورسز کا ایک حصہ ایک ایسے باغی جنرل کے ساتھ مل چکا ہے، جو اپنے طور پر مسلح اسلام پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے۔
ایسے میں لیبیا کی صورت حال پر تشویش کی وجوہات بہت سی ہیں، اطمینان کی وجہ ایک بھی نہیں۔