لیبیا میں فوجی اسلحہ گودام میں دھماکا، 40 سے زائد ہلاکتیں
29 نومبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنوبی لیبیا میں اسلحے کے گودام سے ہتھیاروں کی چوری اور پھر اس دھماکے سے لیبیا میں سلامتی کی دگرگوں صورت حال واضح ہوتی ہے۔ لیبیا کی حکومت پہلے ہی ملیشیا اور دیگر مسلح گروہوں سے اسلحہ پھینک دینے کی استدعا کرتی آ رہی ہے، تاکہ ملکی سلامتی کی صورتحال کو بہتر اور معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے۔ روئٹرز کے مطابق سن 2011ء میں معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والے مسلح عوامی بغاوت کے نتیجے میں کئی دہائیوں تک لیبیا پر حکومت کرنے والے قذافی کے اقتدار کا خاتمہ تو ہو گیا، تاہم بعد میں کوئی حکومت ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔
جمعرات کے روز یہ دھماکا لیبیا کے جنوب میں واقع مرکزی شہر صبہا کے قریب براک الشتی میں قائم فوجی اسلحہ گودام کو 43 مقامی اور افریقی باشندے لوٹنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ حکام کے مطابق ان واقعے میں ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، کیوں کہ دھماکے کے بعد گودام کی عمارت کو آگ لگ گئی جب کہ متعدد افراد ابھی تک عمارت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جمعرات کے روز پیش آنے والے ایک اور واقع میں لیبیا کے مشرقی شہر بن غازی میں فوج اور اسلامی شدت پسند گروپ النصار الشریعہ کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم چار فوجی ہلاک ہو گئے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں، جب فوجیوں نے ہتھیاروں، باردو اور بھاری نقدی کی حامل ایک کار کو روکنے کی کوشش کی۔ بن غازی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیبیا کی اسپیشل فورسز کے کمانڈر وانس بخمندا نے کہا، ’النصار الشریعہ سے جھڑپوں میں تین فوجی ہلاک ہوئے ہیں مگر ہم بن غازی کا دفاع ضرور کریں گے۔‘
سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایک اور فوجی مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہوا۔ واضح رہے کہ بن غازی میں فوج اور النصار الشریعہ کے درمیان جھڑپوں کا آغاز رواں ہفتے پیر کے روز ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسلام پسندوں کے ایک مرکزی ٹھکانے سے پسپا ہونے تک بن غازی میں نو افراد ہلاک ہوئے جب کہ بدھ کے روز تین فوجی مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ سے مارے گئے۔