لیبیا میں قیام امن کے لیے ’متحدہ‘ فوج ناگزیر
17 جولائی 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ لیبیا میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ وہاں ملکی فوج کی ایک متحد ادارے کے طور پر تشکیل ممکن ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے تیونس میں اقوام متحدہ کے نمائندے آج اتوار کے دن دوسرے روز بھی ان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی گزشتہ برس لیبیا میں ایک متحدہ حکومت عمل میں آئی تھی لیکن ابھی تک اس حکومت میں شامل مختلف گروہ طاقت کی رسہ کشی میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب مارٹن کوبلر نے کہا ہے، ’’لیبیا کے تمام نئے مسائل کا تعلق سکیورٹی کے مسئلے سے ہے۔‘‘
اے ایف پی نے ایک عرب ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے کوبلر کے ایک بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب تک لیبیا میں فوج کا ایک فعال اور مؤثر ادارہ وجود میں نہیں آتا، وہاں کے مسائل کا حل تلاش کرنا بہت مشکل کام ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا میں پائیدار قیام امن کی خاطر سکیورٹی فورسز کی صفوں میں اتحاد ضرروی ہے، ’’ان تازہ مذکرات کا مقصد صدارتی کونسل کی سرپرستی میں فوج کا ایک متحد ملکی ادارہ تشکیل دینا ہے۔‘‘
تیونس میں جاری ان مذاکرات کے پہلے دن کے اختتام پر کوبلر نے کہا، ’’لیبیا اس وقت تک متحد نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے بے شمار دشمن فعال رہیں گے۔‘‘ انہوں نے لیبیا میں انسانی حوالے سے پائی جانے والی بحرانی صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ آج دوسرے دن کے مذاکرات میں تمام مندوبین کی کوشش ہو گی کہ وہ ایک متفقہ لائحہ عمل پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے عملی اقدامات کے لیے تیار ہو جائیں۔
لیبیا کی متحدہ قومی حکومت GNA نے تین ماہ قبل دارالحکومت میں اپنا کام شروع کیا تھا لیکن اسے مشرقی لیبیا میں موجود اپنے حریف سیاسی گروہ کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔ متنازعہ رہنما جنرل خلیفہ ہفتر مشرقی علاقوں میں ابھی تک اپنی حامی افواج کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔
کوبلر کے مطابق وہ لیبیا میں امن کی خاطر جنرل ہفتر سے ملاقات کے متمنی ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ مندوب کوبلر کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کئی مرتبہ ہفتر سے ملاقات کی درخواست کی ہے، لیکن وہ ہمیشہ ہی انکار کر دیتے ہیں۔
کوبلر نے کہا کہ پیر اور منگل کے دن لیبیا کی صدارتی کونسل ’اہم سکیورٹی گروپوں‘ سے ملے گی تاکہ فوج کی ایک متحد ادارے کے طور پر تشکیل کے حوالے سے مذاکرات کیے جا سکیں۔
یہ امر اہم ہے کہ لیبیا میں ’عرب اسپرنگ‘ اور مقتول آمر معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے یہ ملک شورش کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق وہاں سیاسی خلا کی وجہ سے جہادی گروہ بھی اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ کئی ممالک لیبیا میں بحران کو علاقائی سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔