لیبیا: کار بم دھماکوں میں چالیس ہلاک، ستّر زخمی
20 فروری 2015اطلاعات کے مطابق ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ دوسری جانب پارلیمانی اسپیکر عقیلہ صالح نے کہا ہے کہ یہ دھماکے مصر کی طرف سے کی جانے والی فضائی کارروائی کا ردعمل لگتے ہیں۔ مصر نے اسی شہر کے قریبی علاقے درنہ میں جہادیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ گزشتہ سوموار کو مصر کی فضائیہ نے درنہ میں مبینہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بمباری کب تھی۔ مصری فضائیہ کی اس کارروائی سے ایک روز پہلے شدت پسندوں کی طرف سے ایک ایسی ویڈیو جاری کی گئی تھی، جس میں اکیس مصری قبطی مسیحی کارکنوں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق تینوں بم دھماکے ایک پٹرول اسٹیشن، مقامی سکیورٹی ہیڈکوارٹر اور ٹاؤن کونسل ہیڈ کوارٹرز کے قریب ہوئے۔ پارلیمانی اسپیکر عقیلا صالح کا العربیہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں کا سوگ سات دن تک منایا جائے گا، ’’ میرے خیال سے یہ درنہ میں جو کچھ ہوا ہے، اس کا ردعمل تھا۔‘‘
ایک مقامی سکیورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ یہ بم دھماکے غالباﹰ خودکش حملے تھے لیکن اس بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں ہو سکی ہیں۔ سابق حکمران معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے لیبیا مکمل طور پر افراتفری کا شکار ہو چکا ہے۔ اس وقت وہاں دو دو حکومتیں اور پارلیمانی ادارے موجود ہیں اور ان کے درمیان اقتدار اور تیل سے حاصل ہونے والی دولت پر کنٹرول کی جنگ جاری ہے۔ ایک حکومت، جو کہ ملک کے مشرق میں واقع ہے، جبکہ دوسری حکومت نے طرابلس کو اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے۔ یہ جنگ فوری طور پر ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
عرب ریاست قطر اور کسی حد تک ترکی ان قوتوں کی حمایت کر رہے ہیں جن کا تعلق اسلام پسندوں سے ہے۔ اس کے برعکس مصر اور متحدہ عرب امارات لیبیا کے ان سیکولر حلقوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جو اسلام پسندوں کے قریبی حلقوں کے بڑے مخالف ہیں۔
دوسری جانب لیبیا میں شام اور عراق کے ایک بڑے حصے پر خود ساختہ اسلامک اسٹیٹ قائم کرنے والے سنی عسکریت پسندوں کا لیبیا میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ عالمی برداری کے لیے تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ عرب اسپرنگ کے بعد 2011ء سے ہی لیبیا میں ایک سیاسی خلا پایا جا رہا ہے، جس سے علاقائی سطح پر عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔