لیبیا کی پرتشدد صورت حال پر امریکا اور یورپی ملکوں کی تشویش
19 اکتوبر 2014امریکا کے علاوہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی نے مسلمان افریقی ملک لیبیا میں پیدا شدہ مسلح انتشار اور عدم استحکام پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پرتشدد حالات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا کی پانچ اہم طاقتوں نے حکومت اور متحارب ملیشیا گروہوں کو تلقین کی ہے کہ وہ فوری طور پر ملکی سلامتی اور سویلین کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے تشدد کے سلسلے کو ختم کر دیں۔ ان ملکوں کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں متحارب فریقین پر واضح کیا گیا ہے کہ لیبیا میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے افراد پر فرداً فرداً مختلف پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
دوسری جانب لیبیا کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ وزیر اعظم عبداللہ التنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے ملک کی متحد افواج ملکی دارالحکومت طرابلس پر دوبارہ قبضے کی مہم شروع کرنے کا پلان کر رہی ہیں۔ طرابلس پر آج کل لیبیا کے اسلام پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ ان اسلام پسندوں کو مصراتہ کے طاقتور قبائلی لشکریوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی پر بھی اسلام پسند تقریباً قابض ہو چکے ہیں۔ عبداللہ التنی نے اپنی حکومت کے لیے بین الاقوامی برادری کی عملی حمایت دستیاب نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
عبداللہ التنی نے ٹیلیفون پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تمام فوج ایک کمان تلے جمع ہو گئی ہے اور اب طرابلس اور پھر بن غازی کی بازیابی کی مہم شروع کی جائے گی۔ التنی نے مستقبل میں اپنی فوج کی کامیابی کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ اے ایف پی کو التنی نے انٹرویو مشرقی قصبے البیدا سے دیا۔ طرابلس سے نکل کر التنی کی حکومت اب تبروک شہر میں عارضی دارالحکومت قائم کیے ہوئے ہے۔ سن 2011 میں معمر القذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے لیبیا کو عدم استحکام اور مسلح انتشار کا سامنا ہے۔
آمر معمر القذافی کے خلاف حکومت کی تبدیلی کی جنگ لڑنے والےملیشیا اور قبائلیوں نے وسائل پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ ہتھیار جمع کر کے بہت ساری قوت حاصل کر لی ہے۔ لیبیا کے بیشتر علاقوں پر انہی اسلام پسند گروپوں نے انتظامی کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔ گزشتہ بدھ سے لیبیا کی فوج کے سابق جنرل خلیفہ حفتر نے اسلام پسند گروپ کے خلاف بن غازی میں ایک نئے آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ حفتر کے مسلح آپریشن میں فوج کو عام سویلین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ وزیراعظم التنی کا کہنا ہے کہ بن غازی میں شروع کیا جانے والا آپریشن اُن کی حکومت اور پارلیمنٹ کی نگرانی میں جاری ہے۔ نیوز ایجنسیوں کے مطابق بدھ سے شروع ہونے والے آپریشن میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں برس مئی میں بھی خلیفہ حفتر نے اسلام پسندوں کے خلاف ایک ناکام آپریشن شروع کیا تھا۔