لیبیا کی کمزور ریاست اور طاقتور ملیشیا گروپ
9 مئی 2014احمد میطیق کا سربراہ حکومت کے طور پر انتخاب بھی مشکلات سے پاک نہیں تھا۔ انہیں وزیر اعظم کے طور پر اپنے انتخاب کی تصدیق کے لیے ایک دن انتظار کرنا پڑا کیونکہ پارلیمانی اسپیکر نے ان کے انتخاب کی دستاویز پر دستخط اسی ہفتے لیکن ایوان میں رائے شماری کے ایک روز بعد کیے تھے۔
وجہ یہ تھی کہ گزشتہ ویک اینڈ پر جب نئے وزیر اعظم کے چناؤ کے لیے ایوان میں رائے شماری ہوئی تھی تو احمد میطیق کی کامیابی کے ابتدائی اعلان کے بعد پارلیمان کے نائب اسپیکر عزالدین العوامی نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ وہ اپنے انتخاب کے لیے لازمی طور پر درکار، ارکان کی کم از کم تعداد کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ العوامی نے رائے شماری اور اس کے نتائج کو بھی غیر مؤثر قرار دے دیا تھا۔
لیبیا کو اس وقت کس طرح کے حالات کا سامنا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نئے سربراہ حکومت کے انتخاب کے لیے ایوان میں پہلی رائے دہی کے دوران پارلیمان کی عمارت کے سامنے کئی ملیشیا گروپوں کے مسلح ارکان نے اس لیے شدید فائرنگ کی تھی کہ اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔
احمد میطیق کے انتخاب سے تین ہفتے قبل ان کے پیش رو وزیر اعظم عبداللہ التینی اس لیے مستعفی ہو گئے تھے کہ ان کے خاندان کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ التینی کے پیش رو وزیر اعظم علی زیدان تو گزشتہ برس اکتوبر میں چند روز کے لیے اغوا بھی کر لیے گئے تھے۔ انہیں اغوا کنندگان نے بعد میں رہا کر دیا تھا اور وہ اس سال مارچ کے مہینے تک اقتدار میں بھی رہے تھے۔ لیکن مارچ میں ہی انہیں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں مستعفی ہونا پڑ گیا تھا۔
نئے وزیر اعظم میطیق کا مسئلہ صرف یہی نہیں ہو گا کہ ان کا اپنا سیاسی مستقبل کتنا محفوظ ہے۔ ان کے لیے اس سے بڑا دردِ سر لیبیا کے وہ بہت بڑے بڑے مسائل ہوں گے جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ مثال کے طور پر لیبیا اس وقت ایک ایسی کمزور ریاست ہے، جو اس حالت میں ہی نہیں کہ اپنی قومی سرحدوں کے اندر اپنی طاقت اور اختیارات کا استعمال کر سکے۔
ریاست کی کوشش ہے کہ بےشمار مسلح گروہوں اور ملیشیا گروپوں کو کنٹرول میں لایا جائے لیکن اب تک یہ کوششیں محض کوششیں ہی ثابت ہوئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لیبیا میں ہر روز ایسے چھوٹے بڑے خونریز اور پرتشدد واقعات دیکھنے میں آتے ہیں، جنہوں نے اس ملک کو تقریباﹰ ناقابل حکومت بنا دیا ہے۔
ابھی اپریل کے آخر میں ہی اسلام پسندوں کے ابو سلیم بریگیڈ نے شمال مشرقی لیبیا کے شہر درنہ کی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ اس جامعہ کے طلبا اور طالبات کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کے لیے اس تعلیمی ادارے میں ایک دیوار تعمیر کرے۔ اس کے چند روز بعد بن غازی میں انصار الشریعہ کے مسلح عسکریت پسندوں نے ایک حملے میں ملکی سکیورٹی فورسز کے نو ارکان کو ہلاک کر دیا۔
لیبیا میں سکیورٹی فورسز کی عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپیں بھی معمول کی بات ہیں۔ گزشتہ برس ان جھڑپوں میں بہت سے دہشت گردوں کے علاوہ کم از کم 90 سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ اس سال کے دوران اب تک ایسی خونریز کارروائیوں میں 50 فوجی مارے جا چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے اور کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستگی سے بالا تر احمد میطیق اپنے حکومتی ارادوں میں کس حد تک کامیاب ہو سکیں گے؟ مصراتہ میں Civil Initiative Libya نامی تنظیم کی خدیجہ شریف کہتی ہیں کہ لیبیا میں فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔
خدیجہ شریف نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی رائے میں موجودہ حالات میں کوئی بھی فوری تبدیلی ناممکن ہے۔ ان کے بقول اگر احمد میطیق کو اتنی کامیابی بھی مل گئی کہ وہ قومی سطح کی کوئی مصالحتی مکالمت شروع کرا سکیں، تو یہ پیش رفت بذات خود ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ خدیجہ شریف کا کہنا ہے کہ لیبیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ وہ وسیع تر علاقے بھی ہیں، جہاں سرے سے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔