لیبیا کے بحران کے حل کے لیے برلن میں مذاکرات
9 جون 2015لیبیا کے سابق حکمران معمر القذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ شمالی افریقی ملک مسلسل بد امنی اور تناؤ کا شکار چلا آ رہا ہے۔ لیبیا میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برنارڈینو لیون کی نگرانی میں مراکشی شہر صغیرات میں ہونے والے مذاکرات کے دوران آج پیر نو جون کو برنارڈینو لیون نے مجوزہ امن معاہدے کا ایک ڈرافٹ پیر کو دیر گئے فریقین کے سامنے پیش کیا۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے لیے مقدس قمری مہینے رمضان کے آغاز سے قبل ہی لیبیا کے متحارب گروپوں کے درمیان معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔ اُن کو عالمی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کی طرف سے تجویز کردہ امن منصوبے پر لیبیا میں قائم دو متوازی حکومتوں کے نمائندہ وفود کی طرف سے مثبت ردعمل دیکھا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لیون نے آج منگل کا دن فریقین کے مذاکرات کاروں سے ملاقات میں گزارا تاکہ اس پر ان کا ردعمل جانا جا سکے۔ مراکش میں ہونے والے مذاکرات میں شامل نمائندے اب مزید بات چیت کے لیے جرمن دارالحکومت برلن روانہ ہو رہے ہیں۔ وہاں ہونے والے مذاکراتی دور میں سکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین کے نمائندے بھی ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے لیبیا کے لیے مشن کے ترجمان سمیر غطاس کے مطابق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم تمام لوگ اب برلن جائیں گے جہاں یورپی رہنماؤں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوں گی۔‘‘
مراکش کی سرکاری نیوز ایجنسی MAP کے مطابق برلن میں ہونے والی بات چیت میں سکیورٹی کونسل کی پانچ مستقل ریاستوں کے سفارت کار بھی شریک ہوں گے۔
جی سیون گروپ کے رہنماؤں کی جانب سے بھی لیون کی امن کوششوں کی تائید کی گئی ہے۔ لیون کی کوشش ہے کہ لیبیا میں قائم دو متوازی حکومتوں کو ضم کر کے ایک متحد حکومت قائم کی جائے تاکہ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کو ایک ناکام ریاست ہونے سے بچایا جا سکے۔
جرمنی میں گزشتہ روز ختم ہونے والے جی سیون سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے لیڈروں کو چار سال سے جاری خونریز تنازعے کے خاتمے کے لیے ’دلیرانہ سیاسی فیصلے‘ کریں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جی سیون لیبیا میں قائم ہونے والی نئی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔