لیبیا کے تنازعے میں بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کی جرمنی آمد
4 ستمبر 2012یہ پناہ گزین پیر کو جرمن شہر ہینوور پہنچے، جن میں سے بیشتر سوڈانی ہیں جبکہ باقی کا تعلق صومالیہ، اریٹریا، عراق، ایتھوپیا اور پاکستان سے ہے۔ اس گروپ میں بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔
ان پناہ گزینوں کی بحالی کا پروگرام اقوام متحدہ نے بنایا تھا اور جرمنی نے گزشتہ برس اس میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔
جرمنی میں وزارت داخلہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ اولے شروئیڈر کا کہنا ہے: ’’بحالی کے اس پروگرام کے ذریعے ہم ان لوگوں تک پہنچے ہیں جنہیں بالخصوص عدم تحفظ کا سامنا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان لوگوں کو روشن مستقبل کے طویل المدتی مواقع فراہم کرتے ہوئے جرمنی نے انسانوں کی فلاح کے لیے ایک اور اہم کام کیا ہے۔
پیر کو جرمنی پہنچنے والے ان لوگوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں منتقل کر دیا جائے گا جہاں وہ اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں گے۔ ساتھ ہی انہیں جرمن زبان کے کریش کورسز بھی کروائے جائیں گے۔
جرمنی نے حال ہی میں سالانہ بنیادوں پر ایسے 300 لوگوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جو کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں اور سیاسی پناہ کے منتظر ہیں۔
اکتوبر میں اسی پروگرام کے تحت ایک سو عراقی جرمنی آئیں گے، جس سے رواں برس کے لیے طے شدہ تعداد پوری ہو جائے گی۔
لیبیا میں گزشتہ برس سابق آمر رہنما معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج اور اس کے نتیجے میں باغیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں، وہاں سے ایسے لوگوں کو فرار اختیار کرنا پڑا تھا، جو لیبیا کے شہری تو نہیں تھے لیکن وہ روزگار کی وجہ سے وہاں رہائش پذیر تھے۔
یہ لوگ وہاں پر کئی دہائیوں سے آباد تھے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ان کی جانب سے لیبیا چھوڑنے کی وجہ یہ تاثر تھا کہ وہ معمر قذافی کے حامی رہے تھے۔
مہاجرین کو سیاسی پناہ دیے جانے کے حامی گروپوں نے اقوام متحدہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ تیونس میں شوشہ کے علاقے میں قائم کیمپ میں ابھی تک اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ دو ہزار 200 پناہ گزین موجود ہیں، جن میں سے صرف ایک ہزار 320 کو پناہ دینے کے وعدے سامنے آئیں، جو مغربی ملکوں نے کیے ہیں۔
ng / aba (dpa, epd)