لیبیا کے عام انتخابات: اقتدار اور تیل کی جنگ
25 جون 2014لیبیا میں انتخابات کے بعد آنے والی نئی قانون ساز اسمبلی موجودہ جنرل الیکشن کانگریس کی جگہ لے گی۔ لیبیا کی موجودہ پارلیمان اسلامی اراکین اور ان کے مخالفین کے مابین اختلافات کی وجہ سے جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کمیٹی کے مطابق بائیس جون کو تیرہ بیرونی ملکوں میں بائیس ووٹنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے اور ان میں مجموعی طور پر بائیس ہزار سے زائد لیبیائی باشندے اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔
لیبیا میں ان انتخابات کا انعقاد ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے، جب ملک کی زیادہ تر حصے بے امنی کا شکار ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی مشرقی شہر بن غازی میں سابق جنرل خلیفہ حفتر کے حامیوں اور اسلامی نظام کے نفاذ کے حامی جنگجوؤں میں شدید لڑائی ہوئی۔ خلیفہ حفتر کو ملکی فوج کے ایک دھڑے کے علاوہ فضائیہ کے عہدیداروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اسلامی جنگجو ملک میں اسلامی نفاذ کے ساتھ ساتھ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک پر اپنا اقتدار چاہتے ہیں جبکہ دیگر سیاسی اور قبائلی گروپ بھی اسی جنگ میں مصروف ہیں۔
پارلیمان کی دو سو سیٹوں میں سے بتیس خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ اس طرح کوٹہ سسٹم کے ذریعے خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹوں میں سے تقریباﹰ چھ لاکھ خواتین ہیں۔
لیبیا میں سیاسی اور نسلی تقسیم انتہائی پیچیدہ ہے۔ انتخابی اتحاد نہ صرف نظریات بلکہ قبائلی دشمنیوں کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ سن 2012ء کے انتخابات میں قوم پرست قومی اتحاد (نیشنلسٹ نیشنل فورسز الائنس) نے اڑتالیس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ انصاف اور تعمیر پارٹی( جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی) دس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر تھی۔ اس سیاسی جماعت کی قیادت اخوان المسلمون کے ہاتھوں میں تھی۔
آنے والے دنوں میں لیبیا کی نئی پارلیمان کو نہ صرف بن غازی میں جاری مسلح تنازعے کا حل ڈھونڈنا ہو گا بلکہ گزشتہ گیارہ ماہ سے خام تیل کی ترسیل کی ناکہ بندی کا مسئلہ بھی حل کرنا ہو گا۔ تیل کی برآمد میں کمی کی وجہ سے اس ملک کو گیارہ مہینوں میں تیس بلین ڈالر کا نقصان پُہنچ چکا ہے۔ تیل کی ناکہ بندی کے حوالے سے قبائلی سرداروں اور حکومت کے مابین ہونے والا معاہدہ اپریل میں ٹوٹ گیا تھا۔
دریں اثناء یورپی یونین نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ان انتخابات کی حمایت کریں تاکہ لیبیا کی سیاسی اور سلامتی کی صورتحال میں بہتری پیدا ہو۔ دوسری جانب ترکی نے مصراتہ شہر سے اپنے 420 شہریوں کو نکال لیا ہے۔ جنرل حفتر نے ترک اور قطری باشندوں کو ملک سے نکل جانے کا کہا تھا۔