لیبیا کے نئے ایوان نمائندگان کا پہلا اجلاس
3 اگست 2014مغربی ممالک کی جانب سے لیبیا سے اپنے سفارتی عملے کو ملیشیا گروہوں کے درمیان گزشتہ دو ہفتوں سے جاری لڑائی کے بعد واپس بلایا جا چکا ہے، تاہم مغربی ممالک نے امید ظاہر کی ہے کہ نئی پارلیمان ملک میں مذاکرات کے عمل کے لیے جگہ بنائے گی۔ سن 2011ء میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں ملسح گروپوں کے درمیان جھڑپوں کی یہ سب سے شدید ترین دور ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہفتے کے روز ملکی پارلیمان کے اس نئے اجلاس کے باوجود دارالحکومت طرابلس میں امن کا کوئی رنگ دکھائی نہیں دیا۔ ہفتے کے روز طرابلس کے جنوب میں واقع ہوائی اڈے کے قریب ایک فیول ڈپو سے سیاہ دھوئیں کے بادل اٹھتے دکھائی دیے۔ واضح رہے کہ اس ہوائی اڈے پر کنٹرول کے لیے زینتان اور مصراتہ برگیڈ کہلانے والے دو گروپوں کے درمیان لڑائی جاری ہے، جس میں اب تک متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق طرابلس کے جنوب میں ان گروہوں نے متعدد عمارتوں پر شیل برسائے اور متعدد املاک کو آگ لگا دی۔ بتایا گیا ہے کہ یہ گروہ ایک دوسرے کے خلاف مشین گنوں اور راکٹوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں میں طرابلس اور بن غازی میں جاری تشدد کی اس تازہ لہر میں اب تک دو سو افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
ادھر برطانیہ نے بھی لیبیا میں اپنے سفارت خانے کی بندش کا اعلان کیا ہے۔ ہفتے کے روز ایک امریکی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ برطانوی بحریہ کا ایک جہاز شمالی افریقہ پہنچ گیا ہے، جس کا مقصد لیبیا میں موجود برطانوی شہریوں کا انخلا ہے۔ برطانوی بحریہ نے اس خبر کی تصدیق کی ہے، تاہم اس آپریشن کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ سن 2011ء میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے لیے حکومت کے خلاف لڑنے والے مسلح گروہ اپنے مقصد میں تو کامیاب رہے، تاہم اس کے بعد ملکی حکومت ان افراد کو غیر مسلح کرنے میں مکمل بے بس دکھائی دی ہے۔