لیبیا کے نواحی سمندری پانیوں سے قریب ایک ہزار مہاجرین ریسکیو
3 مارچ 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کا رجحان بدستور قائم ہے اور گزشتہ روز اطالوی کوسٹ گارڈز نے نو سو ستر تارکین وطن کو بحیرہء روم کی نذر ہونے سے بچا لیا۔
جمعرات کے روز ان نئے تارکین وطن کے اطالوی جزائر لائے جانے سے قبل رواں برس کے آغاز سے اب تک لیبیا سے بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد قریب ساڑھے تیرہ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ حکام کے مطابق تارکین وطن کی آمد میں یہ اضافہ سن 2016 کے مقابلے میں پچاس فیصد جب کہ 2015ء کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صرف جنوری اور فروری کے دو مہنیوں میں اس سفر کے دوران قریب ساڑھے چار سو تارکین وطن بحیرہء روم میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ شدید سردی کے باوجود اس رفتار سے تارکین وطن کی اطالوی جزائر تک پہنچنے کی کوشش کے تناظر میں موسم گرما میں اس تعداد میں کہیں زیادہ اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
جمعرات کے روز مہاجرین لکڑی کی ایک چھوٹی اور ایک قدرے بڑی کشتی میں سوار ہو کر بحیرہء روم کی موجوں سے نبرد آزما تھے، جب انہیں ریسکو کیا گیا۔
اطالوی کوسٹ گارڈز کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ناروے کی ایک امدادی کشتی نے یورپی یونین کی سرحدی محافظ ایجنسی فرنٹیکس اور دو دیگر امدادی کشتیوں کے ہم راہ یہ مشترکہ آپریشن کیا۔
کوسٹ گارڈز کو 85 تارکین وطن کی حامل ایک اور کشتی کی جانب سے پریشانی کا سگنل موصول ہوا، جو یونانی سمندری حدود سے جنوبی اٹلی کی جانب رواں دواں تھی، تاہم یہ کشتی یونانی سمندری حدود عبور نہ کر سکی۔ اس کشتی کو مالٹا کے امدادی بحری جہازوں نے ریسکیو کیا، جب کہ تارکین وطن کو جنوبی یونانی بندرگاہی شہر کالاماتا پہنچایا گیا۔
یہ بات اہم ہے کہ یونانی جزائر کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی روک تھام کی یورپی کوششیں لیبیا کی جانب سے مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے پس پشت چلی گئی ہیں، کیوں کہ شمالی افریقہ سے یورپی حدود میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
یورپی ممالک تارکین وطن کو یورپی یونین پہنچنے سے روکنے کے لیے کڑے اقدامات پر غور کر رہے ہیں، تاہم لیبیا میں تارکین وطن کے ساتھ روا رکھے جانے والے انتہائی شدید نوعیت کے تشدد اور وہاں پھنسے سینکڑوں تارکین وطن کی دگرگوں حالت کے تناظر میں امدادی ادارے یورپی یونین کے مجوزہ اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں۔