لیبیا کے وزیراعظم تنازعے کے حل کے لیے جنوبی صحرا میں
2 اپریل 2012خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک طرف تو یہ معاملہ نہایت سنگین ہے کہ وہاں بڑی تعداد میں عام افراد کے پاس اسلحہ ہے جبکہ دوسری جانب مختلف قبائل کے درمیان اختلافات لیبیا کو استحکام سے دور کیے دے رہے ہیں۔
اس دورے میں وزیراعظم عبدالرحیم الکیب کے ہمراہ روئٹرز کے صحافی بھی تھے۔ ان کے مطابق ملکی دارالحکومت طرابلس سے 750 کلومیٹر جنوب میں واقع اس صحرائی علاقے میں تیبو نسل باشندوں اور سبہا ملیشیا کے درمیان جھڑپیں گزشتہ کئی روز سے شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ سب سے زیادہ خونریز واقعات ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں تیبو قبائل کے زیر قبضہ علاقوں میں مسلح افراد نے متعدد گاڑیاں نذر آتش کر دیں اور چند اہم عمارات کو نقصان پہنچایا۔ تاہم وزیراعظم الکیب نے صورتحال کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالات ان کے تصور سے کافی بہتر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا میں تمام قبائل کو یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ ’نئے لیبیا میں تمام قبائل کے لیے جگہ موجود ہے۔‘
واضح رہے کہ تیبو سیاہ فام باشندے ہیں جن کے روابط قریبی ملک چاڈ سے ہیں جبکہ سبہا عرب باشندے ہیں جو تیبو قبائل کو ’غیرملکی‘ سمجھتے ہیں۔
وزیراعظم الکیب نے کہا کہ ان کے نزدیک لیبا کے تمام باشندے اہم اور مساوی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیبو باشندوں کا خیال بھی بالکل ویسے ہی رکھا جائے گا، جیسے لیبیا کے کسی بھی اور قبیلے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ’’اس مسئلے کی جڑیں تاریخی ہیں۔ قذافی حکومت نے اس مسئلے کو استعمال کیا۔ پچھلی حکومت میں ملکی قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا، تاکہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کمزور رہے۔‘‘
روئٹرز کے رپورٹروں کے مطابق الکیب کے اس دورے میں ایک شخص نے چیخ کر وزیراعظم کو یہ بھی کہا کہ حکومت ان تک پہنچنے میں تاخیر کا شکار رہی ہے اور تیبو قبائل کے خلاف فوج کا استعمال کر کے انہیں تشدد سے روکا جائے۔ الکیب نے اس شخص سے گفتگو کی تاہم سکیورٹی عملہ وزیراعظم کو اس مجمع سے دور لے گیا۔ وزیراعظم الکیب نے اس دورے میں تیبو قبائل کے عمائدین سے بھی ملاقات کی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: حماد کیانی