ماحولیاتی تبدیلیاں اور تحفظ کے غیر روایتی چیلنجز
20 نومبر 2021ہانس زائیڈل فاونڈیشن نے پاکستان کی مختلف جامعات، زرعی یونیورسٹی ملتان، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز، انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سینٹر آف انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبیلٹی اور سینٹر فار گلوبل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے تعاون سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور تحفظ کے غیر روایتی چیلنجز سے متعلق یورپین یونین کے مطالعاتی دورے کا انتظام کیا۔ پانچ روزہ دورے میں پاکستانی وفد کی قیادت سی جی ایس ایس کے ڈائریکٹر خالد تیمور اکرم اور پاکستان میں ہانس زائیڈل فانڈیشن کے انچارج اسٹیفن کڈیلا نے کی۔
ماحولیاتی تبدیلیاں: 'ہم اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں‘
'ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنگ پر اپنا غصہ برقرار رکھیں '، اوباما
وفد میں پروفیسر ڈاکٹر آصف علی ڈاکٹر محمد اشرف ، ڈاکٹر ثمر اقبال بابر، محمد تیمور فہد خان، ڈاکٹر محمد مکی، ڈاکٹر تغرل یامین، ڈاکٹر اسٹیفن کوڈیلا، محترمہ مہر غواس، اسٹیفن برکھارٹ، دیتراچ جوہن اور کونستنتائن بلاشکے شامل تھے۔
پاکستان کے ماحولیاتی تبدیلی کے ماہرین اور جامعات کے اساتذہ کے اس اعلیٰ سطحی وفد نے یورپین یونین کے اداروں یورپی کمیشن، پارلیمنٹ، کونسل، مختلف ڈائریکٹوریٹس، سول سوسائٹی تنظیموں اور نیٹو دفتر کا پانچ روزہ دورہ کیا۔ اس دورے کا اہتمام جرمن تھنک ٹینک ہانس زائیڈل فانڈیشن نے کیا تھا۔ فاونڈیشن گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان میں جمہوری استحکام، امن اور تعمیر و ترقی کے لیے متحرک ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں ایچ ایس ایف کے نمائندے ڈاکٹر اسٹیفن کوڈیلا نے دورے کے اغراض مقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد پاکستان اور یورپین یونین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے ساتھ ان دونوں میں ماحولیاتی تحفظ کے غیر روایتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں سرحدوں سے بالاتر ایک بہت بڑا چیلنج ہیں اور ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی خشک سالی نے فوڈ سکیورٹی یا خوراک کے تحفظ کی بابت بحران کو جنم دیا ہے۔ دوسری جانب جنوبی ایشیا میں پانی کی کمی کا مسئلہ بھی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ اور ملکوں کے درمیان تنازعات کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا بڑے پیمانے پر ہجرت بھی انہی تنازعات سے جنم لیتی ہے۔ پاکستان اور یورپین یونین نے مشترکہ طور پر ان مسائل کو حل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا ہم ایک مشترکہ دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا کو عدم تحفظ سے دو چار کردیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پاکستانی وفد کے رکن اور زرعی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ ہم نے یورپین کمیشن کے ماحولیاتی ماہرین کو بتایا کہ پاکستان اس بات کا ادراک رکھتا ہے خاص طور پر خوراک کے تحفظ کا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے منسلک ہے اور اسی لیے پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فوڈ سکیورٹی بحران سے نمٹنے کیے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زرعی یونیورسٹی گندم کی پیداوار کے لیے بیجوں پر کام کرچکی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ یورپین یونین علمی تعاون کے ذریعے مقامی مصنوعات کی فروغ میں مدد کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ضرر رساں گیسوں سے متاثرہ ملک ہے جبکہ پاکستان نے کاربن گیسوں کے اخراج میں کوئی حصہ نہیں ڈالا، اس لیے 2015 کی پیرس ماحولیاتی سربراہی کانفرنس میں پاکستان نے کاربن کریڈٹ کا جو ڈائیلاگ کیا تھا اس کے مندرجات پر عملدرآمد کیا جائے اور پاکستان کو کاربن کریڈٹ دیا جائے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے چیرمین ڈاکٹر اشرف نےڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں پانی کا بحران بہت شدت اختار کرگیا ہے اور پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں ریسرچ کے لیے فنڈز درکا ہیں۔ انہوں مزید کا کہا پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار بہت تیز ہے اور پانی کے استمعال میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا پی سی ار ڈبلیو آر بہت لمبے عرصے یہ کہتا رہا ہے کہ پانی کے مسئلے کو حل کی ضرورت ہے اور اس کا حل علاقائی طور پر ہی نکلے گا۔
ڈاکٹر اشرف نے بتایا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان میں ایسی موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں، جن میں گرم موسم مزید شدت اختیار کررہے ہیں اور سرد موسم میں سردی میں بہت اضافہ ہو رہا ہے، جس سے پانی کی قلت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اور حالیہ عالمی پروجیکشن میں ورلڈ رسک انڈیکس میں پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیل سے شدید ترین متاثر ہیں ۔ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد ڈاکٹر ثمر اقبال نے کہا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر روایتی عدم تحفظ کے شکار علاقوں میں سرمایہ کاری کی جائے خاص طور پر انہوں نے ٹڈی دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خوراک کے تحفظ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں جو کسی بھی وقت حملہ آور ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر تغرل یامین نے فیک نیوز کے ذریعے استحکام کو نقصان پہنچانے کی روک تھام کے لیے صحیح اور جامع حکمت عملی کی تشکیل پر زور دیا۔ انہوں کہا عوام کو ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے روشناس کرانا اور صحیح معلومات پہچانا بہت ضروری ہے کیونکہ علمی آگاہی میں ٹیکنالوجی کا کردار بہت اہم ہے۔
اس دورے میں پاکستانی وفد نے نیٹو کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل، یورپین کمیشن کے ڈی جی کلائمیٹ چینچ، یورپین پارلیمنٹ کے اراکین ، یورپین پالیسی سینٹر اور متعدد تھنک ٹینک کے نمائندوں سے تبادلہء خیال بھی کیا۔