مبارک کا استعفیٰ: مطلق العنان عرب رہنما بے چین
12 فروری 2011تیونس اور مصر کے بعد اب اس سلسلے میں بالخصوص یمن کا نام لیا جا رہا ہے، جہاں صدر علی عبد اللہ صالح گزشتہ 32 برسوں سے اقتدار پر براجمان ہیں۔ تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کے بعد حسنی مبارک مختصر عرصے میں عرب دنیا کے دوسرے ایسے حکمران بن گئے ہیں، جن کا اقتدار عوامی جدوجہد کی نذر ہو گیا۔
تیونس کے انقلاب کو انقلابِ یاسمین کا نام دیا گیا تھا جبکہ مصری عوام اپنے ہاں آنے والی تبدیلی کو سفید انقلاب کا نام دے رہے ہیں۔ مصر میں 1952ء میں شاہ فاروق کے خلاف فوجی بغاوت سے اب تک صرف فوجی شخصیات ہی حکمران رہی ہیں۔ اگرچہ سابق صدر انور سادات اور حسنی مبارک عمومی طور پر بہت کم ہی وردی میں ملبوس نظر آتے تھے، تاہم دونوں پس پردہ فوجی سروس میں فعال رہے۔
82 سالہ حسنی مبارک اپنے اہل خانہ کے ہمراہ دارالحکومت قاہرہ چھوڑ کر بحیرہء احمر کے کنارے واقع تعطیلاتی شہر شرم الشیخ منتقل ہوگئے ہیں۔ نائب صدر عمر سلیمان کے مطابق اقتدار اب فوجی کونسل کے پاس رہے گا، جو عرب دنیا کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا انتظام سنبھالے گی۔ فوجی کونسل کی جانب سے فی الحال پارلیمانی یا صدارتی انتخابات کے کسی نظام الاوقات کا اعلان نہیں کیا گیا۔
صرف اتنا کہا گیا ہے کہ فوج ’مصر کے عظیم عوام کی امیدوں پر پورا اترنا چاہتی ہے۔‘ بعض حلقے مصری فوج کے بارے میں یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت کی بہت زیادہ حامی نہیں ہے۔
ایک اسرائیلی سفارتکار کا کہنا ہے کہ مستعفی ہونے سے قبل حسنی مبارک نے اس سفارتکار کے ساتھ گفتگو کی۔ اس سفارتکار کے مطابق حسنی مبارک نے امریکہ کی جانب سے مصر میں جمہوریت کی حمایت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اب حالات شدت پسندی کی جانب بڑھیں گے۔
مصری فوج کی کمان فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی کے پاس ہے جو اب تک مبارک انتظامیہ میں دفاع کے وزیر تھے۔ چونکہ بہت مذہبی نظریات کا پرچار کرنے والی جماعت اخوان المسلمین ایک منظم قوت بن کر ابھر رہی ہے، اس لیے یہ خدشات بھی نمایاں ہیں کہ شاید فوج توقعات کے برعکس لمبے عرصے تک اقتدار میں رہے۔
ادارہ برائے سٹریٹیجک اور بین الاقوامی علوم سے وابستہ جان آلٹرمین کا شمار ایسے ہی دانشوروں میں ہوتا ہے جو مصر میں ’فوجی بوٹوں کی گرج سن رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں، ’’موجودہ صورتحال بس آغاز کا انجام ہے، مصر جمہوریت کی جانب نہیں بڑھ رہا، یہ مارشل لاء کی جانب بڑھ چکا ہے۔‘‘
العربیہ ٹیلی وژن کے مطابق قوی امکان ہے کہ فوجی قیادت ملکی کابینہ اور پارلیمان کو تحلیل کر دے گی اور آئینی عدالت کے سربراہ فوجی کونسل کا حصہ بن جائیں گے۔ مستقل فوجی اقتدار کی راہ روکنے کی واحد امید وہی عوامی طاقت سمجھی جا رہی ہے، جس نے حسنی مبارک کے اقتدار کو زوال سے دوچار کیا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک