’مجھے بلاتے تو میں خود نیب کے دفتر جاتا‘
21 فروری 2019وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ نے نیوز کانفرنس کے دوران اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی اسلام آباد سے گرفتاری اور اس کے بعد کراچی میں ان کے گھر پر نیب کے ساڑھے پانچ گھنٹے طویل چھاپے پر انتہائی برہمی اور دکھ کا اظہار کیا۔
مراد علی شاہ نے کہا، ’’سندھ حکومت اپنے اسپیکر کے اہل خانہ کو نیب کی دہشت گردی سے نہیں بچا سکی، آغا صاحب کی اہلیہ، بیٹوں اور بہو کو گھر سے نکال کر لان میں کھڑا رکھا گیا، تضحیک کی گئی، بدزبانی کی گئی، دنیا میں کوئی قانون کسی شخص یا ادارے کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دشمن ملک کی تحویل میں موجود قیدیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔‘‘
مراد علی شاہ نے چیئرمین نیب سے اپیل کرتے ہوئے کہا، ’’اپنے ادارے کے اہلکاروں کو دیکھیں، چیئرمین نیب ایک معزز جج رہے ہیں اس طرح کے رویے ان کا نام خراب کر رہے ہیں۔‘‘
مراد علی شاہ نے کہا 22 فروری کی دوپہر سندھ اسمبلی کا اجلاس ہے اور قائم مقام اسپیکر ریحانہ لغاری نے آغا سراج درانی کے بطور رکن اسمبلی پروڈکشن آرڈر جاری کردیے ہیں جو نیب کو موصول ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''تحریک انصاف کس منہ سے آغا سراج کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے، اسپیکر کے انتخاب کے وقت انہوں نے اسپیکر کےعہدے کے لیے اپوزیشن کے امیدوار جاوید حنیف کو ووٹ دیا تھا، جاوید حنیف بھی تو جیل سے اسمبلی آئے تھے۔‘‘
سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں اسلام آباد سے گرفتاری نے پاکستانی سیاست میں نیا طوفان برپا کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے نیب کی اس تازہ ترین کارروائی کو تحریک انصاف کی حکومت سندھ کے خلاف سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے آغا سراج درانی نہ صرف خاندانی سیاست دان ہیں بلکہ سابق صدر آصف علی رداری کے زمانہ طالبعلمی کے ساتھی بھی ہیں۔ ان کے والد اور تایا سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں اور آغا سراج خود بھی دوسری مرتبہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل وہ سندھ میں کئی اہم محکموں کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ماضی میں بھی ان پر نیب کے ریفرنس رہے ہیں لیکن وہ ان میں باعزت بری ہوئے تھے۔
آغا سراج درانی چند روز قبل کسی تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئے تھے جہاں سے ان کو بدھ کی شام واپس کراچی آنا تھا لیکن نیب کے انٹیلیجنس ونگ نے انہیں دوپہر میں ہی گرفتار کرلیا۔ نیب کی جانب سے آغا سراج درانی کو عدالت میں پیش کرکے سات روز کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی لیکن عدالت نے صرف تین روز کا ریمانڈ منظور کیا۔ اس کے بعد آغا سراج درانی کو ایک کمرشل پرواز کے ذریعے گزشتہ رات کراچی منتقل کردیا گیا۔
آغا سراج درانی کی کراچی منتقلی سے قبل ہی نیب کراچی نے رینجرز کے ہمراہ ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور کئی گھنٹے تک تلاشی لی گئی۔ جائیدادوں کی دستاویزات کے علاوہ آٹھ گاڑیاں بھی قبضہ میں لے لی گئیں۔ چھاپے کی اطلاع ملتے ہی کئی صوبائی وزرا اور پیپلز پارٹی کے کئی اراکین سندھ اسمبلی بھی وہاں پہنچے لیکن کسی کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضٰی وہاب نے ڈی ڈبلیو سے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’آغا سراج کی گرفتاری کی منطق سمجھ نہیں آئی، تاریخ میں پہلی بار کسی سٹنگ اسپیکر اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔ آج تک آغا سراج کے خلاف کوئی کیس احتساب عدالت میں داخل نہیں کیا گیا۔ ان کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔ تحقیقات کے دوران گرفتاری ضروری ہے تو پھر حکومتی اراکین کے خلاف بھی تحقیقات ہورہی ہیں، وزیر اعظم عمران خان، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر اعلٰی خیبر پختون خواہ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے خلاف بھی نیب تحقیقات کررہا ہے۔‘‘
نیب کی جانب سے آغا سراج درانی کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ نیب نے عدالت کو بتایا کہ آغا سراج درانی سے آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملے پر پوچھ گچھ جاری ہے لہذا چودہ روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے آغا سراج کو سات روز کے ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا۔
عدالت سے واپسی پر صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سراج درانی نے کہا، ’’مجھے نیب نے طلب نہیں کیا۔ میرے گھر والوں کو حراساں کیا گیا۔ نیب کا طریقہ کار انتہائی غلط ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ اگر مجھے بلاتے تو میں خود نیب کے دفتر جاتا لیکن سب جانتے ہیں یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہورہا ہے۔‘‘ آغا سراج نے عدالتوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مقدمات کا سامنا کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ماضی میں بھی ایسے مقدمات بھگتے ہیں، سرخرو رہے، آئندہ بھی بے گناہ ثابت ہوں گے۔‘‘
لیکن دوسری جانب تحریک انصاف اپنے موقف پر قائم ہے۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ’'آغا سراج درانی اسپیکر رہنے کا اختلاقی جواز کھو چکے ہیں لہذا انہیں فوری عہدے سے استعفٰی دے دینا چاہییے۔‘‘ شیر زمان کا کہنا تھا کہ سندھ میں جتنے بھی وزیر بلدیات رہے ہیں وہ نیب کے راڈار پر ہیں اور وزیر اعلٰی مراد علی شاہ بھی نیب کو مطلوب ہیں، اس لیے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر دعوٰی کیا کہ عمران خان کی حکومت کے دوران ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوکر رہے گا۔