محمد یونس کی برطرفی، بنگلہ دیشی عوام منقسم
7 اپریل 2011بنگلہ دیش میں پروفیسر یونس اور شیخ حسینہ کی حکومت کے درمیان محاذ آرائی نے ایک مرتبہ پھر ملکی عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیاہے۔ مظفر احمد کی طرح ہزاروں بنگلہ دیشی باشندوں کا خیال ہے کہ ریٹائرمنٹ کے لیے مقرر 60 سال کی عمر کی حد پار کرنے کے بعد بھی محمد یونس کا اپنے عہدے پر برقرار رہنا غیر قانونی تھا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے ریٹائرڈ پروفیسر مظفر احمد کہتے ہیں، ’’بہترین صورتحال یہ ہوتی کہ یونس ریٹائر ہو جاتے اور ان کو گرامین بینک کا اعزازی مشیر رکھ لیا جاتا۔ میرے خیال میں حکومت ابھی بھی ایسا کرنے پر تیار ہے۔‘‘
بنگلہ دیش کے ایک اور مشہور اکانومسٹ اکبر علی خان کا کہنا ہے کہ یونس کو فوری طور پر ہٹانے اور گرامین بینک میں تبدیلیاں لانے سے مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں، ’’گرامین بینک میں اگر فوری طور پر درمیانے اور اعلیٰ درجے کی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں تو شدید مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ جملہ تبدیلیاں آرام اور ہم آہنگی سے ہونی چاہیئں۔‘‘
اکبر علی خان فکر مند ہیں کہ یونس کے خلاف حکومت کی مہم سے نہ صرف مائیکرو کریڈیٹ اداروں بلکہ دوسری تنظیموں اور سول سوسائٹی کے گروپوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ ’’بے شک یہ فیصلہ بنگلہ دیش میں مائیکروکریڈٹ پر بھی اثر انداز ہو گا، کیونکہ گزشتہ تین بلکہ چار عشروں سے حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی آئی ہیں۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کے درمیان اتنی بڑی خلیج پہلے کبھی نہیں تھی جتنی کہ آج دیکھنے میں آ رہی ہے۔ آج حکومت کی طرف سے این جی اوز کی کچھ بنیادی کامیابیوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘
نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی مغربی دنیا میں بہت حمایت کی جاتی ہے۔ امریکی حکومت نے بنگلہ دیش کو دھمکی دے رکھی ہے کہ یونس کے ساتھ معاملات حل کیے جائیں ورنہ دو طرفہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تر مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ محمد یونس کے معاملے کی وجہ سے بنگلہ دیشی حکومت کے اس کے اہم پارٹنر ممالک کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ: تھوماس بیرتھ لائن / امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک