کیا پنجاب میں قوم پرستی بڑھ رہی ہے؟
4 فروری 2020تاریخی طور پر پنجاب نے کبھی بھی قوم پرستی کی سیاست نہیں کی اور یہاں ہمیشہ مذہبی یا نظریاتی سیاست ہوتی رہی۔ البتہ ماں بولی کی ترویج کے لیے یہاں کئی تنظِمیں برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں چھوٹی قومیتوں کی طرف سے پنجاب کے خلاف الزامات، کالا باغ ڈیم کی سندھ اور کے پی کی طرف سے مخالفت، پنجاب کے مختلف شہروں میں پختونوں کی آمد اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے پنجاب کی ممکنہ تقسیم نے اس قوم پرستانہ جذبے کو مزید ابھار دیا ہے۔ پنجابی قوم پرست گروپس میں کچھ ترقی پسندانہ سوچ بھی رکھتے ہیں۔ کچھ سیاسی، معاشی اور ثقافتی محاذ پر پنجاب کے مفادات کا دفاع کرنا چاہتے ہیں جب کہ کچھ گروہ انتہائی نفرت انگیز سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔
پنجاب نیشل پارٹی پاکستان کے صدر احمد رضا وٹو نے پنجابی قوم پرستی کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ایک عام پنجابی کا خِیال ہے کہ پنجاب کو بلا وجہ چھوٹے صوبوں کی طرف سے لعن و طعن کی جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم پنجاب کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے لیکن دوسرے صوبے اس کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح سندھی کسی صورت سندھ کی تقسیم نہیں چاہتا لیکن پنجاب کی تقسیم سرائیکی صوبے کے نام پر کرنے کے لیے سندھ سے لے کر کے پی تک سارے قوم پرست آوازیں لگاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کے پی سے آنے والے پختونوں نے پنڈی اور دوسرے شہروں میں بڑے کاروبار سنھبال لیے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی ایم کے رہنما نے بھی پنجابیوں کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔ پنجاب میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ایک بلوچ کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کو وزیر اعلٰی بنا دیا گیا ہے تو یہ وہ سارے عوامل ہیں جو پنجاب میں ایک عام آدمی کو قوم پرستی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تنظیم پنجابی زبان کی ترویج چاہتی ہے،''اس کے علاوہ ہم سرائیکی صوبے کے نام پر پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم کسی غیر پنجابی کو یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں، جو پنجاب دھرتی میں رج بس گیا ہے۔ تاہم ہم ایسے عناصر کو بالکل برداشت نہیں کریں گے، جو پنجاب کو توڑنے یا تقسیم کرنے کی باتیں کریں گے۔"
تاریخی طور پر پنجابیوں کی سب سے پہلے کوئی تنظیم لسانی بنیادوں پر پنجاب کے بجائے سندھ میں بنی۔ 1980ء کی دہائی میں کراچی میں پنجابی اسٹوڈنٹس ایسویسی ایشن بنی جبکہ 1980ء کی دہائی میں ہی کراچی میں ایک پنجابی سیاست دان ملک غلام سرور اعوان نے پنجابی پختون اتحاد کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔
پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے سابق مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری یاسر فرید نے پنجابی قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی لہر کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں جب پنجاب میں تھا تو مجھے کبھی بھی پنجابی ہونے کا احساس نہیں ہوا لیکن جب میں سندھ آیا تو یہاں ہم پر جملے کسے جاتے تھے اور ہمارا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ تو اس وقت ہمارے رہنماؤں نے پی ایس اے بنائی۔ پہلے قوم پرستانہ جذبات صرف سندھ کے پنجابیوں میں تھے کیونکہ سندھ میں سندھی قوم پرستی بہت ہے لیکن اب پنجاب میں بھی ایسے جذبات ابھر رہے ہیں۔ تاہم پنجابیوں کو ایک رہنما ملنے میں ابھی وقت لگے گا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابیوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی تعداد سرکاری اداروں میں کم ہو رہی ہے اور پنجاب میں بھی ان کے کاروبار پر دوسرے لوگ آرہے ہیں۔‘‘
ان دونوں پنجابی جماعتوں میں قوم پرستانہ جذبات کی بہت شدت نہیں ہے۔ تاہم پنجابی نیشنلسٹ فورم یا بی این ایف کے نام سے ایک گروپ پنجاب بھر میں منظم ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس گروپ کی سوشل میڈیا پر کئی تحریریں اور نعرے ناقدین کے خیال میں بہت اشتعال انگیز ہیں۔ اس تنظیم کے چیف آرگنائزر شہباز آرائیں کا دعوی ہے کہ پنجاب کے کئی علاقوں پر کرد نژاد بلوچوں اور عرب سے آئے ہوئے خاندانوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان کا دعوی ہے بلوچوں، پختونوں اور بھارت سے آئے ہوئے اردو بولنے والے مہاجروں نے پاکستان پر قبضہ ہوا کیا ہے۔
تاہم بی این ایف سے وابستہ سلیم الیاس پنجابی کا کہنا ہے کہ ان کا فورم کسی بھی قومیت کے خلاف نہیں ہے،''ہم یہ چاہتے ہیں کہ پنجابیوں کے حوالے سے جو تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، اس درست کیا جائے۔ پنجاب کو آبادی کے لحاظ سے اس کا جائز حق دیا جائے اور پنجابیوں کو برا بھلا کہنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ پنجابیوں کا ریاست پر قبضہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1947ء سے لے کر 1971ء تک صرف ایک پنجابی فیروز خان نون وزیر اعظم بنے اور انہوں نے بھی آپ کو گوادر لے کر دیا۔ اس کے علاوہ سندھ اور کراچی میں پنجابی آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہیں لیکن آپ سرکاری نوکریوں میں ان کی شرح دیکھ لیں۔ کراچی سے زیادہ اردوبولنے والے پنجاب میں آباد ہیں۔ یہاں بلوچوں اور پختونوں کی ایک بڑی تعداد ہے لیکن پنجابی کراچی اور بلوچستان میں خوف کی فضا میں رہے رہا ہے۔ تم ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر پنجاب میں بھی ہم ایسا طرز عمل اپنائیں تو پھر کیا ہو گا۔ تاہم ہم کسی قومیت کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں اور ہماری آبادی باسٹھ فیصد ہے، ہمیں اسی لحاظ سے ہمارا حق دیا جائے۔‘‘
تاہم پنجابی قوم پرستی کی جہاں مختلف حلقوں کی طرف سے مخالفت آرہی ہے، وہاں پنجاب میں بھی کچھ حلقے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ معروف پنجابی سماجی کارکن امجد سلیم کے خیال میں پنجاب میں تنگ نظر قوم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے،''ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ پنجابی زبان کی ترویج ہو اور پہلے سے لے کر گریجویشن تک پنجابی میں تعلیم دی جائے۔ ماں بولی کو فروغ دینا ہمارا مشن ہے۔ لیکن دوسری قومیتوں کے خلاف بولنا قوم پرستی نہیں بلکہ شاؤنزم ہے، جس کے ہم شدید مخالف ہیں۔‘‘