مسلم لیگ نواز کا مستقبل، شہباز یا مریم؟
14 نومبر 2019مسلم لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے پریس کانفرنس میں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے نواز لیگ کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ اور لاہور ہائیکورٹ نے درخواست سماعت کے لیے مقرر کر لی ہے۔ شہباز شریف نے سوالات اٹھائے کہ کیا پرویز مشرف سے بھی بانڈ مانگا گیا تھا اور زلفی بخاری نے آدھے گھنٹے میں کس کا نام ای سی ایل نکلوایا تھا۔
میاں نواز شریف کے بیرون ملک جا نے کے حوالے سے حالات لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ شدید علیل ہیں اور ان کے پلیٹلیٹس کی تعداد اس حد تک کم ہوگئیں کہ کہا گیا کہ اس صورتحال میں وہ ملک سے باہر سفر بھی نہ کر سکیں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ نواز شریف چند دن میں بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے۔ غالب گمان ہے کہ آگے جا کر مریم نواز بھی اپنے والد کے پاس چلی جائیں۔ ایسے میں نواز لیگ کا والی وارث کون ہو گا؟
وقتاﹰ فوقتاﹰ کہا جاتا رہا کہ مریم نواز ہی ن لیگ کی اگلی لیڈر ہیں۔ لیکن اس وقت شہباز شریف کی باڈی لینگوئج اور پریس کانفرنس کرنا یہی بتاتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جماعت کا مستقبل اب ان ہاتھ میں ہے۔
اس پس منظر میں چند سوالات اہم ہیں کہ جب یہ طے ہے کہ نواز شریف نے علاج کے لیے جانا ہے تو حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کیوں اور کیا یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہوگا؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں مریم نواز ہمیں خاصی جارحانہ سیاست کرتے ہوئے نظر آئیں۔ انھوں نے اپنے والد کے لیے " ووٹ کو عزت دو" کی تحریک چلائی اور اسٹیبلشمنٹ پر انگلیاں اٹھائیں۔ اس دوران شہباز شریف، شاہد خاقان اور حمزہ شہباز بظاہر پس منظر میں دکھائی دیے۔ اس لیے سمجھا جانے لگا کہ مریم ہی اپنے والد کے بعد اس جماعت کی روح رواں ہوں گی۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں ویسے بھی باپ کے بعد بیٹا اور بیٹی کی روایت عام ہے خواہ خاندان سے باہر کوئی کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو۔
دانیال عزیز صاحب سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ، "یہ بحث پہلے بھی ہو چکی ہے۔ پہلے بھی طرح طرح کی باتیں کی گئیں لیکن شاہد خاقان عباسی بڑے آرام سے وزیراعظم بن گئے۔ اب بھی جماعت کا کوئی نقصان نہ ہوگا اور شہباز شریف جماعت کو سنبھالیں گے۔"
کیا شہباز شریف اور مریم نواز میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے؟ دانیال عزیز صاحب کا خیال ہے کہ ایسا اس لیے نہیں ہوگا کہ سب کے عہدے طے کیے جا چکے ہیں۔ مریم اپنے عہدے پر کام کریں گی جبکہ شہباز شریف مسلم لیگ ن کو آگے بڑھائیں گے۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چودھری کا کہنا تھا کہ، "اس پر کوئی ابہام نہیں۔ مسلم لیگ ن کی پوری تنظیم سب کے سامنے ہے۔ شہباز شریف صدر ہیں اور پارٹی بھی وہی سنبھالیں گے۔ مریم نواز سیکنڈ لیڈر کے طور پر ان کے ماتحت کام کریں گی۔ مسلم لیگ ن میں نوجوان قیادت موجود ہے، جس کا کام آنے والے وقت میں نظر آئے گا۔"
یوں مسلم لیگ ن کے اندر کوئی ابہام نظر نہیں آتا کہ نواز شریف کے بیرون ملک روانہ ہونے کے بعد شہباز شریف ہی پارٹی کی کمان سنبھالیں گے ۔ اگر مریم نواز اپنے والد کے ساتھ بیرون ملک نہ بھی گئیں تو موجودہ حالات میں ان کا رول شہباز شریف کے ماتحت ہوگا۔ فی الحال مستقبل قریب میں مریم عملی سیاست میں نظر نہیں آتیں اور حمزہ تو دور دور تک نظر نہیں آتے۔
لیکن شہباز شریف کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ کیا اس کے پیچھے یہ راز بھی پوشیدہ ہے کہ شہباز شریف اپنے لچک دار رویے کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کو قبول ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ممکن ہے کہ شہباز شریف کے کمان سنبھالنے کے بعد ملکی سیاست میں بھی اہم تبدیلیاں نظر آئیں۔