مسیحی آبادی نئے حملوں سے خوفزدہ
24 ستمبر 2013شالوم نذیر کی آنکھ میں غم کے تیرتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ غمزدہ آواز اور رکتی ہوئی سانس کے ساتھ اس کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں چرچ میں بائبل کی کلاس لینے جا رہا تھا کہ میں نے دھماکے کی آواز سنی۔ میں بھاگ کر باہر آیا۔ زمین پر تقریباﹰ تین سو لوگ گرے پڑے تھے۔ میں نے اپنی ماں کو پہچانا اور بانہوں میں تھام لیا۔‘‘ لیکن شالوم کی یہ کوشش بے فائدہ ہی گئی۔ بعد ازاں ان کی والدہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئیں۔
حالیہ چند برسوں میں پاکستان میں ہونے والے فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملک میں سنی اور شعیہ مسلمانوں کے مابین متعدد پرتشدد واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن ملکی عیسائی آبادی کسی حد تک اس میں محفوظ رہی۔ تاہم اتوار کے روز ہونے والے واقعے نے ان خدشات میں اضافہ کر دیا ہے کہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔
پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اپنے زخمی رشتہ داروں کی عیادت کے لیے آنے والے سلیم ہارون کا کہنا تھا، ’’ہم سے گنہگاروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہماری کوئی جائیداد نہیں ہے، ہماری کوئی فیکٹریاں نہیں ہیں، ہمارا کوئی کاروبار نہیں ہے۔‘‘ سلیم ہارون کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ایک نئی جنگ ہے۔ پہلے ہدف شیعہ تھے لیکن اب ہم ٹارگٹ ہیں۔ وہ ایک نئی جنگ چاہتے ہیں، نیا میدان جنگ چاہتے ہیں۔‘‘
اتوار کے حملے میں خوش قسمتی سے بچ جانے والے 35 سالہ ڈرائیور دانش یونس کا کہنا تھا ماضی میں مسلمان اور عیسائی مل جل کر رہتے رہے ہیں لیکن اب خدشہ ہے کہ وہ دن اب ختم ہونے والے ہیں، ’’ہمارے مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ حملے سے پہلے کوئی کشیدگی نہیں تھی۔ لیکن ہمیں ڈر ہے کہ یہ مسحیوں کے خلاف تشدد کی ابتدا ہے۔‘‘
پشاور کے بشپ ہمفری پیٹرس کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکام سے کئی مرتبہ سکیورٹی کا دوبارہ جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تھا، ’’مجھے ڈر ہے کہ یہ صرف آغاز ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان کے دیگر حصوں تک پھیل سکتا ہے۔ ہم ایک آسان ہدف ہیں۔ کرسچیئن آسان ہدف ہیں۔‘‘
انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے ’سونامی‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اتوار کے حملے میں زیادہ تر رشتے دار کھو دینے والی شالوم کی آنٹی عافیہ ذہین کا کہنا تھا، ’’ الیکشن میں عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ سونامی ہے، یہ تبدیلی لائے گا لیکن سونامی کہاں ہے ؟ کیا یہ تبدیلی ہے؟